گلوبل ویلج
نریندر مودی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
بھارت میں تو ہونی ہی تھی خطے میں اور عالمی سطح پر بھی مودی کی بڑی پذیرائی ہو رہی تھی۔اس میں بھی شک نہیں کہ مودی کی طرف سے بہت سے ایسے اقدامات کیے گئے جس سے بھارت کی معیشت مضبوط ہوئی ہے۔ بھارت کبھی پچاسویں نمبر پر تھا اب وہ چوتھے پانچویں نمبر پر برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ کر آ چکا ہے۔مودی کو اس طرح سے اٹھانا انہیں عالمی سطح کا لیڈر باور کروانا اس کے پیچھے بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ موجود تھی۔ نریندر مودی سے زیادہ اس کو کون سمجھ سکتا کون جان سکتا ہے کہ وہ اس مقام پر پہنچے ہیں تو کیسے پہنچے ہیں۔وہ طاقتور وزیراعظم بن چکے تھے ،ملک کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جا رہے تھے۔ یہاں پر تھوڑی سی گڑبڑ ہوئی کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے بل بوتے پر کیا ہے، اپنی عقل ،دانش اور مہارت کو استعمال کرتے ہوئے کیا ہے۔ بھارتیوں کے سامنے نجات دہندہ کے طور پر خود کو پیش کرنے کے لیے مودی کی طرف سے انتہائی ظالمانہ اقدامات بھی کیے گئے۔انسانیت کی دھجیاں تو آپ کو کشمیر میں اور خالصتان کے حوالے سے جاری تحریک کے خلاف اقدامات سے اڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔یہ تو سارا کچھ بھارت کے اندر ہو رہا تھا لیکن مودی صاحب نے خود کو بھارت کا سب سے بڑا لیڈر ثابت کرنے کے لیے ہندوستان سے باہر بھی قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع کر دیا جس طرح سے ڈیڑھ دو سال میں بھارت سے باہر خالصتان کی قیادت کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس سے تویوں لگتا تھا کہ مودی ”پابلواسکوبار “(سابق کولمبین ڈرگ ڈان)کا روپ دھار چکے ہیں۔ کینیڈا میں ہردیپ سنگھ کو جون میں قتل کیا گیا۔ مئی میں پاکستان میں چھپے ہوئے پرم جیت سنگھ پنجوار کو ہلاک کیا گیا اسی دوران خالصتان کی بات کرنے والے کھنڈا سنگھ اور رپو دمن سنگھ کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور یہ سارے واقعات بھارت سے باہر کروائے گئے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ یہ سارا کچھ دیکھ رہی تھی لیکن خاص مقاصد حاصل کرنے کے لیے وہ مودی کی پذیرائی کرتی رہی۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی جب بات کی جاتی ہے تو اس کا سرخیل امریکہ ہے۔ مودی اسی سال جون میں امریکہ گئے وہاں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی ان کو زبردست پروٹوکول دیا گیا۔ وہی سے بیٹھ کرمودی نے اپنی قوم سے خطاب کیا، وہیں پر انہوں نے امریکہ کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ مودی کے ساتھ ذاتی تعلقات بہترین ظاہر کرنے کے لیے صدر جوبائیڈن کے اہل خانہ مودی کے اردگرد گھومتے رہے اور پھر جی 20کانفرنس سے پہلے بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے بھی کیے گئے۔ امریکہ یا جوبائیڈن کی طرف سے یہ سارا کچھ کیوں کیا جا رہا تھا صرف اس لیے کہ جی20کانفرنس میں روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے روس کی مذمت کی جائے۔ یہاں مودی کو گریس مارکس ضرور دینے چاہئیں کہ مودی نے تمام تر امریکی نوازشات کے باوجود روس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے پس منظر میں جو بھی ہو بہرحال مودی نے اپنی خودداری کا مظاہرہ کیا۔ ملکی خودمختاری دکھائی۔ کانفرنس کے آغاز میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن اپنے ہم منصب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ملے ان سے بات کی کہ روس کی مذمت کرنی ہے۔ توجے شنکر کی طرف سے کہا گیا کہ ”اِٹ از ناٹ بالی ،اٹ اِز نیو دہلی“۔گذشتہ سال بالی میں جی 20کانفرنس ہوئی تھی اس کانفرنس میں روس کی مذمت کر دی گئی تھی۔ اسی کا حوالے دے رہے تھے جے شنکر اور انہوں نے روس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ جی 20کانفرنس کا آخری سیشن جوبائیڈن ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ انہوں نے ویت نام جانا ہے۔ جی کانفرنس سے یوں سمجھیں کہ جوبائیڈن کی پیرپٹختے ہوئے واپسی تھی۔ یہیں سے جوبائیڈن کی طرف سے مودی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔اور پھر سبق سکھانے کا آغاز کیسے ہوا۔ جون میں ہردیپ سنگھ کا قتل ہوتا ہے، انویسٹی گیشن کی گئی ہو گی۔اس میں کتنی دیر لگتی ہے، تین ماہ تک مکمل خاموشی اور اس کے بعد پھر جسٹن ٹروڈو صاحب شدید اشتعال میں آتے ہیں اور پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر مودی پر بھارت پر الزام لگاتے ہیں کہ خالصتان کی لیڈرشپ کو افغانستان میں دہشت گردی کا نشانہ بھارت کی طرف سے بنایا جا رہا ہے۔ ”را“ کے سینئر افسر کو کینیڈا سے نکال دیا جاتا ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی ، نیوزی لینڈ ،آسٹریلیا کی طرف سے جسٹن ٹروڈو کی حمایت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بھارتی رویے کی مذمت کی جاتی ہے۔
بھارت ڈیڑھ پونے دو ارب کی مارکیٹ ہے۔کینیڈا جیسا ملک ایسی مارکیٹ سے کیسے ہاتھ کھینچ سکتا ہے۔ ممولے کو کبھی باز سے لڑتے نہیں دیکھا گیا۔لیکن جب ممولے کے پیچھے ششکارنے والے ہوں تو پھر ممولا باز سے لڑ بھی جاتا ہے۔ اورایساہی اس معاملے میں ہو رہا ہے کہ کینیڈا بھارت کے بالمقابل آ گیا اور مغربی دنیا کینیڈا کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔میں نے اپنی تحریروں اور ایک دو انٹرویوز میں یہ کہا تھا کہ بھارت سے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے اور خاص طور پر امریکہ نے جو کام لینا ہے وہ لے لیا ہے۔اب مودی کی اتنی زیادہ پہلے جیسی ضرورت نہیں رہی۔ اور مودی صاحب اس کانفرنس کو لے کر اس کی کامیابی کا کریڈ ٹ لے کر اگلے سال مئی میں ہونے والے انتخابات جیتنا چاہتے تھے۔لیکن یہاں پر وہ تھوڑی سی چوک کر گئے، امریکہ کو آنکھیں دکھا گئے اور خود کو دنیا کا بہت بڑا لیڈر ثابت کرنے کے زعم میں اپنے پا?ں پر کلہاڑی مار بیٹھے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے بچھائے ہوئے جال سے نکلنا مودی کے لیے اب ناممکن ہے۔ مودی زیادہ ہی کچھ زعم میں تھے جیسا کہ وہ خالصتان کی لیڈر شپ کا خاتمہ کر رہے تھے،کینیڈا میں خصوصی طور پر ان کی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری تھیں۔ جرمنی کے ساتھ بھی بھارت کا پنگا ہو چکا ہے۔ اور کچھ ممالک اس طرح سے بھارت کی زیادیتوں پر خاموش رہے جس طرح خان صاحب کی طرف سے اس بچے کی حالت کر دی گئی تھی جس نے خان صاحب کو کچھ چھیڑ دیا تھا۔ اس سے پہلے اس بچے نے کسی کو چھیڑا تو اس نے اس بچے کو پانچ روپیے دیئے تھے اسی زعم میں بھی اس نے خان صاحب کے ساتھ بھی شرارت کر دی۔اور یہی کچھ مودی کے ساتھ بھی ہوا ہے بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرنے کے لیے آپ کے پیچھے کوئی ڈان ہوتا ہے ،کوئی رسہ گیر ہوتا ہے ،کوئی پشت پناہ ہوتا ہے۔ بدمعاش اور غنڈے کی غنڈیائی موت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے ڈان سے بغاوت کر دیتا ہے اور ایسا ہی مودی کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔
نریندر مودی کو ایک مضبوط وزیراعظم بنانے کے پیچھے امریکن حکمت عملی یہ تھی کہ مودی کی تیل مالش کرکے اس کو چین کے سامنے کھڑا کیا جا سکے۔مگر نریندر مودی ایک ہندو بنیا ہے وہ پاکستان کے ساتھ چھوٹی موٹی جنگ کرکے رجعت پسند ہندو?ں کو خوش کرنا چاہتا تھا مگر ”آئی فائیو “کے گروپ نے سینکڑوں ارب ڈالر کی بھارت میں انویسٹمنٹ کسی اور مقصد کے لیے کی تھی۔قارئین مجھے آج یہ خبر ملی ہے کہ صرف کینیڈا نے اپنے پنشن فنڈ میں سے 55ارب ڈالرز بھارت کے اسٹاک ایکسچینج میں انویسٹ کر رکھے ہیں۔مگر امریکہ ،برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جنہیں(آئی فائیو یعنی پانچویں آنکھ کے ممالک کہا جاتا ہے)نے بھی سینکڑوں ارب ڈالر ز کی بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔پاکستان اور کینیڈا میں جس طرح سے بھارت دہشت گردی کر رہا تھا، دنیا کو وہ باور کروارہا تھا کہ میں نے گھس کر مارا ہے۔گھس کے بھی اس وقت تک ہی مارا جا سکتا ہے جب پشت پناہی ہو رہی ہو۔ اب پتا چلے گا کہ مودی صاحب کتنے طاقتور ہیں، کتنے بہادر ہیں، معاملات کو کس طرح سے سنبھالتے ہیں۔ لیکن ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ مودی صاحب کی سیاست کا جنازہ اٹھنے والا ہے،ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک چکا ہے، جس کی وجہ وہ خود بنے ہیں۔