سوڈانی وزیر صحت ہیثم ابراہیم نے انکشاف کیا کہ ملک میں حال ہی میں متعدد بیماریوں اور غذائی قلت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ حفاظتی ٹیکوں کی شرح میں کمی کے نتیجے میں بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے پیر کے روز مزید کہا کہ عرب ورلڈ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے میں بچوں میں بہت سی بیماریوں اور غذائیت کی کمی اور نشوونما میں کمی کی شرحیں 30 فیصد سے زیادہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ بیماریاں کمزور حفاظتی ٹیکوں کی وجہ سے پھیل رہی ہیں۔ ان میں خسرہ بھی شامل ہے۔ خسرہ خاص طور پر وائٹ نیل اسٹیٹ کے پناہ گزین کیمپوں میں بہت زیادہ پھیل رہا ہے۔ہیثم ابراہیم نے کہا کہ حفاظتی ٹیکوں کی کم شرح کی وجہ سے دس سوڈانی ریاستوں میں خسرہ پھیل گیا تھا۔ ان میں سے 80 فیصد سے زیادہ کیسز ریاست ’’النيل الأبيض‘‘ کے پناہ گزین کیمپوں میں تھے۔ صرف اس ریاست میں انفیکشن میں مبتلا افراد کی تعداد 3 ہزار سے بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جنگ سے پہلے بچوں کی اموات کی شرح ہر ہزار میں سے 53 تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ توقع ہے کہ موجودہ حالات میں النيل الأبيض، النيل الأزرق اور دیگر کچھ ریاستوں میں پناہ گزین کیمپوں میں یہ شرح زیادہ ہوگی۔طبی شعبے کو درپیش خطرات کے بارے میں ہیثم ابراہیم نے کہا کہ سلامتی کا خطرہ سب سے پہلے آتا ہے۔ وہ ریاست خرطوم، دارفور کی ریاستوں اور دیگر کچھ ریاستوں میں مواد کی فراہمی اور خدمات فراہم کرنے میں شدید مشکلات سامنے آئی ہیں۔اقوام متحدہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ گزشتہ مئی سے سوڈان کے نو پناہ گزین کیمپوں میں خسرہ اور غذائی قلت سے تقریباً 12 سو بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔گزشتہ اپریل میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے سوڈان میں صحت کی خدمات بہت متاثر ہوئی ہیں۔ خاص طور پر ریاست خرطوم اور ملک کے مغرب میں دار فور کے علاقے میں حالات انتہائی خراب ہوگئے۔