
نگران حکومت نے کہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر قانونی راستہ اپنایا جائے گا۔
پاکستان میں بہت سے راستے ہیں، اتفاق کچھ ایسا ہے کہ ان میں سے کسی کا نام قانونی راستہ نہیں ہے۔ قانونی راستہ کھولنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل کس قانون کے تحت کیا گیا تھا اور انہیں کس جرم میں یہ سزا سنائی گئی تھی۔ مناسب سمجھا جائے تو ایک کمشن بنایا جا سکتا ہے جو اس بات پر غور کرے کہ نہ وصول کی جانے والی تنخواہ بھی اثاثہ ہوتی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد قانونی راستہ کھولنے کیلئے دوسرا قدم بند عدالت سےدی گئی سزائے قید کے پیچھے کون تھا۔ کیا وہی جنہوں نے کسی منصب کو آ کر یہ انتباہ کیا تھا کہ باپ بیٹی کو ضمانت دی تو ہماری اتنے سال کی محنت ضائع ہو جائے گی اور جب منصف نے یہ انتباہ ماننے سے انکار کیا اور قانون پر چلنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے منصفی ہی سے برطرف کر دیا گیا۔
یہ امور جب طے ہو چکیں گے تو پھر قانونی راستے کی تلاش کے لیے کسی حاتم طائی کو آٹھویں سفر پر روانہ کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال سرزمین بے قانون کا اعزاز ہمیں کافی ہے۔
______
میڈیا پر ہفتہ بھر یہ طوفان چھایا رہا کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ میں پھر ٹھن گئی ہے۔ کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ نواز شریف دو سابق جرنیلوں کا احتساب کرنے کے ارادے سے ٹلتے نظر نہیں آتے اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو بچانے پر تل گئی ہے۔ ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے، معاملہ ڈیڈ اینڈ کی طرف جا رہا ہے۔
ان میں سے ایک کے ساتھ کہیں اور سے کچھ ہو گیا تو....؟۔ پھر یہ ڈیڈ لاک کدھر جائے گا۔ ایک معاملہ عدالت میں ہے یعنی فیض آباد دھرنے کا معاملہ پھر سے کھل گیا ہے اور خود ادارے کے اندر کبھی اس زیر انصاف شخصیت کے بارے میں کسی خیرسگالی کا ذرہ بھر شائبہ بھی موجود نہیں ہے۔ لیجئے جناب، آدھا طوفان تو یہیں ہوا ہو گیا۔
رہا دوسری شخصیت کا معاملہ جو سابقہ چیف بھی ہے تو لکھ لیجئے۔ ہمارے ہاں ہر مسئلے کا اِکّو ای حل کے مصداق ایک شاندار اور ناقابل شکست فارمولا موجود ہے۔ اسے ”چونکہ چنانچہ“ کا نام دیا گیا ہے۔
ایک طرف سے یہ فارمولا پیش کیا جائے گا کہ مذکورہ صاحب نے سب غلط کیا، بہت ناانصافی کی، نتیجہ بہت منفی نکلا لیکن چونکہ یہ یوں ہے چنانچہ وہ ووں کر لیتے ہیں۔
نواز شریف جواب میں اپنا چونکہ چنانچہ لائیں گے کہ اصولاً یہ غلط ہے۔ احتساب ہونا چاہیے لیکن چونکہ آپ کہتے ہیں چنانچہ میں مان لیتا ہوں۔ باقی آدھا طوفان چنانچہ یوں ہوا ہو جائے گا۔ پھر ڈیڈ لاک اپنا منہ دیکھتا رہ جائے گا اور ڈیڈ اینڈ کا بھی دی اینڈ ہو جائے گا،
چونکہ یہی ہونا ہے، چنانچہ یہی ہو گا، سب خیر رہے گی اور راوی بدستور ہر دو فریقین کیلئے چین ہی چین لکھتا رہے گا۔ اچھا ہے کہ ہم جس مشترکہ یا جس عامہ (کامن سینس) کو تھوڑی سی زحمت دے دیں۔ پانچ چھ سال سے جرم بے گناہی کی سزا بھگتنے والے نواز شریف کو ریلیف مل رہا ہے تو وہ پھر سے اوکھلی میں سر کیوں دیں گے۔ فریق ثانی کو کسی آزمائش میں ڈال کر اپنے لئے بھی مشکل صورتحال کیوں پیدا کریں گے۔ سیاست چونکہ چنانچہ کے فارمولے کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ اس میں مخالف کی چال ناکام بنانے کیلئے اپنی چال اصول کے پتے میں لپیٹ کر چلنا پڑتی ہے۔ جنرل موصوف کو تین سال کی توسیع بھی اصول کے برگ سبز میں چال کا چھالیہ لپیٹ کر چلی گئی تھی اور نتیجہ حسب ولخواہ سامنے آیا تھا اور فریق مخالف کا زوال اسی دن شروع ہوا تھا جس روز یہ چال چلی گئی تھی۔
______
ازخود اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ”مصالحت کار“ بننے والے محمد علی درانی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت مصالحت چاہتی ہے۔
کون سی قیادت؟۔ایک قیادت اندر ہے، دوسری باہر۔ درانی صاحب کا اشارہ باہر والی قیادت ہی کی طرف ہو سکتا ہے۔ قیادت کی یہ تقسیم 9 مئی کے بعد ہوئی۔ وہ قیادت جو 9 مئی کے سلسلہ واقعات کی قیادت کر رہی تھی، مصالحت یا غیر مصالحت کے معاملے سے غیر متعلق ہے۔ اسے اب مستقلاً سیاست بدر سمجھئے۔ اطلاعات ہیں کہ سلاخوں کے اندر موجود یہ قیادت ”مصالحت“ کے پیغامات بھجوا رہی ہے لیکن جواب یہ مل رہا ہے کہ ضرورت نہیں۔ اس قیادت کا ایک مختصر ضمیمہ مفرور کے زمرے میں ہے اسے بھی غیر متعلق سمجھئے۔
دوسرا حصہ وہ ہے جو نو مئی کے روز دائیں بائیں ہو گیا تھا یا عذر معقول کی وجہ سے موقع پر پہنچنے سے معذور رہا تھا یا دیر سے پہنچا تھا۔ درانی صاحب اسی عذر معقول والی قیادت کی بات کر رہے ہیں، غالباً!۔ ان حضرات کو بھی مصالحت کا پیغام دینے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ ان کے خلاف تو پہلے ہی کچھ نہیں ہو رہا۔
درانی صاحب کا مشن چنانچہ قطعی بلاضرورت اور بے فائدہ ہے۔ اور یہ تاثر بھی تحلیل ہو گیا جو شروع میں بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ درانی صاحب کو کسی نے اس ”خدمت“ پر مامور کیا ہے۔ مامور تو وہ ہیں لیکن انہوں نے خود ہی خود کو مامور کیا ہے۔ شاید وہ پی ٹی آئی کے اندر سے کوئی ”مصالحتی دھڑا“ تیار کر کے اس کے قائد بننے کے چکّر میں ہیں۔ اور نہیں تو پھر انہیں کیا ملے گا۔ لیکن یہ امکان تو رہے گا کہ مستقبل میں جب بھی کبھی کوئی اے پی سی ہوئی تو کرسیوں کی لمبی قطار میں کسی ایک کرسی پر درانی صاحب بھی بیٹھے ملیں....بشرطیکہ وہ مصالحتی دھڑا بنانے میں کامیاب ہو جائیں اور اس کے بعد اس کی سربراہی بھی مل جائے۔ خواب اچھا ہے، دیکھتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
______
وزیر اعظم کاکڑ نے یہ کہہ کر پی ٹی آئی کو ایک سخت اداسی مائل اشتعال میں مبتلا کر دیا کہ اگلے الیکشن عمران خان کے بغیر بھی منصفانہ طور پر ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے زیر زمین ترجمان نے اس پر اعتراض کیا کہ عمران خان کے بغیر عام انتخابات کیسے منصفانہ ہو سکتے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ عالمی برادری ایسے نتائج کو کس طرح تسلیم کر لے گی۔
بالکل اسی طرح تسلیم کر لے گی جس طرح نواز شریف کے بغیر 2018ءکے انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا تھا___ کیا تھا کہ نہیں؟۔ چنانچہ پی ٹی آئی کو اس حوالے سے تشویش ، غم و غصے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔