جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران کا جرأت مندانہ خطاب
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا کو کووڈ19 کے ساتھ ساتھ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش خطرات جیسے سہ طرفہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ خدا کے فضل سے پاکستان کورونا کی وبا قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور باہمی تعاون کی منصوبہ بندی کی بدولت ہمیں انسانی زندگیوں اور معاش کو چلائے رکھنے میں مدد ملی اور ہماری معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہا۔ گزشتہ روز یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے خدشہ ظاہر کیا کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزیرے ویسے ہی ایک عالمی آفت کی شکل اختیار کرلیں گے جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو دولت کی غیرقانونی اڑان روکنے کیلئے ایک جامع قانونی فریم ورک تشکیل دینا ہوگا۔
عمران خان نے باور کرایا کہ اسلامو فوبیا بھی ایک ایسا خوفناک رجحان ہے جس کا ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ امریکی نائن الیون کے بعد سے کچھ حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ہے جس کے سبب انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ بھارت کی فاشسٹ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت انگیز ہندتوا کے نظریات نے بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کیخلاف خوف و تشدد کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ شہریت کے امتیازی قوانین کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ نئی دہلی نے بدقسمتی سے مسلمانوں کے قلع قمع کی سوچ پر مبنی ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے جسے وہ جموں و کشمیر کے قضیئے کا حتمی حل قرار دیتا ہے جبکہ یہ راستہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے۔
وزیراعظم نے اس حوالے سے عالمی قیادتوں کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ بھارت نے پانچ اگست 2019ء سے مسلسل یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ اس نے 13 ہزار کشمیریوں کو اغواء کیا ہوا ہے جس میں سے سینکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ سینکڑوں کشمیریوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح بھارت نے کشمیریوں کو اجتماعی سزائیں دینے کی روش اختیار کر رکھی ہے جس میں پورے پورے گائوں اور مضافاتی علاقے تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس جبر کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ اسے مسلم اقلیتی علاقے میں بدل دیا جائے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے دیگر ہمسایوں کی طرح بھارت کے ساتھ بھی امن سے رہنے کا خواہش مند ہے لیکن جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا دارومدار جموں و کشمیر کے مسئلہ کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونے میں ہے۔ امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا یواین قراردادوں کے مطابق حل ضروری ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہاء کر دی ہے۔ اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنائے‘ وزیراعظم نے اس کیلئے عالمی قیادتوں سے بھارت کو مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے پر مجبور کرنے کا تقاضا کیا ہے۔ نمبرایک‘ بھارت پانچ اگست 2019ء کو کئے گئے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات منسوخ کرے‘ نمبر2‘ کشمیر کے عوام کیخلاف ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے‘ نمبر3‘ مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب میں کی جانیوالی تبدیلیاں واپس لے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور جنگ کو روکا جائے۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنے طویل خطاب کے دوران یقیناً ایک مدبر لیڈر کی حیثیت سے اقوام عالم کو درپیش تمام مسائل کی نشاندہی بھی کی اور انکے ممکنہ حل کے راستے بھی دکھائے۔ ان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی طرح بلاشبہ آج الحادی قوتوں کا اسلامو فوبیا سے متعلق پیدا کیا گیا تلخ ماحول بھی علاقائی اور عالمی امن تاراج کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم نے مرض کے اصل روٹ کی بھی نشاندہی کی جو بھارت سے نکل کر دنیا میں پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گردی کا موردالزام ٹھہراتے ہوئے انکے قتل عام کی صورت میں مسلم کشی کی نوبت لا رہا ہے۔
بھارت کا اصل ایجنڈا تو اکھنڈ بھارت کی صورت میں اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا ہے جس کے تحت ہندو سماج برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتا ہے چنانچہ انتہاء پسند ہندو حکمرانوں نے سیکولر بھارت کو ہندو انتہاء پسند ریاست میں تبدیل کرکے پورے خطے میں ہندو جنونیت کی آگ بھڑکا دی ہے جو بالآخر پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر پر قیام پاکستان کے وقت سے ہی بھارت کا غیرقانونی تسلط جمانا اسکے مسلم دشمن توسیع پسندانہ عزائم ہی کا تسلسل تھا چنانچہ وہ اپنے ہی پیدا کردہ اس مسئلہ کے حل کیلئے یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی پائوں تلے روندتا رہا اور عالمی قیادتوں و عالمی اداروں کے ہر دبائو اور ثالثی کی پیشکشوں کو بھی رعونت کے ساتھ ٹھکراتا رہا جبکہ اس نے پاکستان بھارت دوطرفہ مذاکرات کے حوالے سے 1972ء میں طے پانے والے شملہ معاہدہ کو بھی دوطرفہ مذاکرات کی ہر میز رعونت کے ساتھ الٹا کر غیرمؤثر اور ناکام بنایا اور کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرکے بھارتی تسلط قبول نہ کرنے والے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کی نئی مثالیں قائم کردیں۔ بھارت کی مودی سرکار نے تو مسلم دشمنی کی ساری حدیں عبور کرلی ہیں اور ہندوتوا کے ایجنڈے کی بنیاد پر مسلمانوں کے علاوہ بھارت کی دوسری اقلیتوں بشمول سکھوں کی زندگیاں بھی اجیرن بنا دی ہیں۔ مقبوضہ وادی بشمول لداخ کو جبراً بھارت میں ضم کرنے کیلئے مودی سرکار نے دو سال قبل پانچ اگست کو جو یکطرفہ اقدامات اٹھائے جن کے بعد اس نے گزشتہ 782 روز سے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کرکے ان پر باہر کی دنیا کے تمام دروازے بند کر رکھے ہیں‘ وہ دنیا بھر میں ظلم و جبر کی نئی مثال ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے کورونا کی آڑ میں بھی مسلمانوں پر ظلم و جبر کے راستے نکالے اور انہیں کورونا کے پھیلائو کا موردِالزام ٹھہرایا جس پر مودی سرکار کیخلاف دنیا بھر میں نفرت و حقارت کی لہر اٹھی ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل اسمبلی میں خطاب کیلئے واشنگٹن آنیوالے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو وہاں کشمیریوں اور سکھوں کے سخت احتجاج کا ہی سامنا نہیں کرنا پڑا‘ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی خود انکے استقبال سے گریز کیا جبکہ انکے خطاب کے موقع پر حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیریوں نے مقبوضہ وادی اور بھارت میں مکمل ہڑتال کی۔
وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ہندوتوا کا ایجنڈا رکھنے والے جنونی بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی اور عالمی قیادتوں سے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک نئی جنگ روکنے کے اقدامات اٹھانے کا تقاضا کیا جن میں اصل قدم مسئلہ کشمیر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیلئے اٹھانا مقصود ہے۔ بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے جس کی جانب وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شریک عالمی قیادتوں کو متوجہ کیا ہے۔ اس تناظر میں جنرل اسمبلی کا موجودہ اجلاس روایتی اجلاسوں کی طرح محض نشستند‘ گفتند‘ خوردن و برخاستند پر ہی منتج نہیں ہونا چاہیے بلکہ اجلاس میں اقوام عالم کو درپیش تمام مسائل بالخصوص اسلامو فوبیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کا ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے۔ یہ نمائندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کی ساکھ کا بھی سوال ہے۔