مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں کہ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی اور بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھلتی، اس بات کا ادراک حکمرانوں کو بھی شائد ہوتا جارہا ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں بھوک کا خطرہ ہے، پیداوار میں اضافہ نہ ہوا اور آبادی بڑھتی رہی تو افلاس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے ایک سال میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں پچھلے 20 سال کے مقابلے میں زیادہ بڑھی ہیں۔ جن اشیا خور نوش سے جسم و جاں کا رشتہ برقرا رکھا جاسکتا ہے ان کی قیمتوں میں سو فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے اس اسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی معاملات کس قدر گھمبیر ہوں گے بجلی ، سوئی گیس اور پٹرول کے علاوہ ٹیلی فون سے جڑی تمام سہولیات کی قیمتوں میں بھی بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ سروسز کے معیار کا یہ عالم ہے یہ تمام کمپنیاں جو سروسز فروخت کر رہی ہیں انہں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان کی سروس کا معیار کیا ہے انٹر نیٹ جوں کی رفتار سے چلتا ہے لیکن کسی حکومتی ادارے کو انہیں پوچھنے کی جرات نہیں کہ ایسی گھٹیا سروس کیوں مہیا کی جارہی ہے یوں لگتا ہے کہ ہر طرف ہر سطع پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب انہیں ناقص اور غیر میعاری خوراک مل رہی ہے۔ پاکستانی عوام خصوصا بچے اور حاملہ خواتیں غذایت سے محروم ہو تے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے جس بھوک کے خدشے کا اظہار کیا ہے وہ عملاً ظہور پذیر ہو چکا ہے، ، مناسب اور متناسب خوارک نہ ملنے کے باعث بیماریوں میں اضافہ ہو چکا ہے اور عوام کی اکثریت دوائیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتی نیم حکیم اور عامل بابوں کی چاندی ہو چکی ہے ادھر جرائم کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالات نے لوگوں نے چوریوں اور دوسروں کے ساتھ بے ایمانی اور فراڈ کرنے کی راہوں کا انتخاب کرنا شروع کر دیا ہے، نوجوان نسل کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ ہنر جن کے پاس تعلیم اور ہنر ہے وہ بھی بے روزگار ہیں اس پر مستزاد ان کا حق ریٹائر لوگوں کو نوکریاں دے کر مارا جا رہا ہے ان حالات میں اگر نوجوان جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہونا چا ہیے، ڈر ہے کہ کہیں ملک انارکی کا شکار نہ ہو جائے۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے سوا تین سال کا عرصہ ہو چکا ہے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اگر حکومتی اعداد و شمار اور بیانات کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں ہر طرف امن و امان ہے لیکن عملاً یہ حالت ہے کوئی بھی حکومتی وزیر مشیر یہاں تک کہ خود پولیس کے اعلی افسران بھی حفاظتی دستوں کے بغیر سر عام گھوم پھر نہیں سکتے۔ عوام کو خالی خولی دعوے نہیں چاہیے عوام کو تو دو وقت کی روٹی، صاف پانی، رہنے کیلیے گھر، صحت کی سہولیات، تعلیم اور روزگار، جو کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات ہیں ملنی چاہیے۔ اگر حکومت عوام کی بنیادی ضرویات مہیا نہیں کر سکتی تو ایسی حکومت کو ناکام ترین حکومت ہی کہا جاسکتا ہے۔عوام کو اس وقت مہنگائی کے جس جن کا سامنا ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں لوگ عملاً گھبرا ہی نہیں چکے بلکہ خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کی کوئی پالیسی عوام دوست نہیں اور نہ مہنگائی کم کرنے کیلیے کوئی ٹھوس اقدامات کررہی ہے بلکہ، اپنی نااہلی کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر گرا کر عوام سے داد وصول کرنا چاہ رہی ہے کیا عوام بے وقوف ہیں؟
دوسری جانب وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ایک سو چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکسوں لگائے ہیں جس سے مہنگائی مذید اضافہ ہوا ہے۔اس ساری صورتحال کا تجزیہ کریں تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ روپیہ ڈالرکی محکومیت کا شکار ہے،اس معاشی افراتفری میں اشیا کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔
پاکستان میں ڈالرکی قیمت 170 روہے سے زائد ہو چکی ڈالرکی قیمت میں بے ترتیب اتار چڑھائوکی وجہ آئی ایم ایف سے کیا جانے والا معاہدہ ہے۔ اسکے مطابق اسٹیٹ بینک ڈالرکوکنٹرول نہیں کرے گا ، طلب اور رسد کی بنیاد پر مارکیٹ خود ہی قیمت کا تعین کرے گی، لیکن ایک سال میں جو اتار چڑھائودیکھا گیا ہے ماضی میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے کورونا کے سماجی و اقتصادی اثرات کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے دوران لاک ڈائون سے 2 کروڑ 73 لاکھ افراد کے روزگار متاثر ہوئے اور 2 کروڑ 6 لاکھ افراد بیروزگار ہوئے، 66 لاکھ افراد کی آمدن میں کمی ہوئی، اس کے علاوہ مینوفیکچرنگ، زراعت، ہول سیل، ٹرانسپورٹ، تعمیرات ودیگر شعبے کورونا سے بری طرح متاثر ہوئے جبکہ تعمیرات سے منسلک 80 فیصد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ مہنگائی کے اثرات نے جہاں صنعتوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں، وہیں لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ معاشرے میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں جو مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے کہ اس وقت ملک میں جہاں مزدور اور محنت کش طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے ، وہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور پروفیشنل افراد بھی بے روزگار ہیں یعنی روزگار کے مواقعے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں ،یہ ملکی معیشت کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ حکومتی بے حسی ہے۔