برہان وانی آزادی کشمیر کی تحریک کا ہیرو ہے ، کشمیری اپنے زور بازو کے بل بوتے پر بھارت سے آزادی کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ کشمیری شہیدوں کے جنازوںمیں لاکھوں افراد کی شرکت سے بھارت کی آ نکھیں کھل جانی چاہیئں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت پر فتح حاصل کرتی ہے تو کشمیری اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اب پاکستانی ٹیم ہاری ہے تو پاکستانیوں کی طرح کشمیری بھی دل گرفتہ اور اداس نظر آتے ہیں۔یہ کہنا ہے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا۔ یقین تو نہیں آتا کہ کوئی حکومتی اہل کار کشمیریوں کے حق میںاس قدر بلند آہنگ اور کلیریٹی سے بولے گا،اس گھن گرج سے مظلوم اور مقہور کشمیریوں کا ساتھ دے گا اور ان کی امنگوں کی ترجمانی کرے گا مگر معجزے رونما ہو جاتے ہیں اور فواد چودھری صاحب لائق تحسین ہیں کہ انہوںنے قائد اعظم کے ایک بھولے بسرے ایجنڈے کو زندہ کیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ فواد چودھری ا سوقت بولے ہیں جب ان کی حکومت کی کوشش تو یہ ہے بھارت سے تعلقات خوشگوار ہوں۔ اس کے لئے وزیر اعظم نے اپنی وکٹری تقریر میں بھارت کو ایک پیش کش کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے خط کے جواب میںمذاکرات کی ضرورت پر زور دیا مگر بھارت کی ہر کل الٹی چلتی ہے۔ا سنے پاکستان کی نئی حکومت کے پیغام کو سمجھنے میں سخت غلطی کاارتکاب کیا اور نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کو طے کرنے کے بعد بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا اس کے لئے بہانے وہ تراشے جو عمران حکومت کے اقتدارمیں آنے سے پہلے مبینہ طور پر واقعات پیش آئے کہ بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور برہان وانی کے لئے یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا۔ بھارت نے صرف ایک ملاقات منسوخ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو للکارا کہ اسے درد محسوس کرانے کا وقت آ گیا ہیْ اس پر وزیر اعظم عمران خاں کو ٹویٹ کرنا پڑا کہ انہیں بھارتی رویئے پر سخت افسوس ہوا۔ دنیا میں جب کبھی چھوٹی ذہنیت کے لوگ بلند مناصب پر براجمان ہو جاتے ہیں تو وہ بصارت اور دور اندیشی سے محروم ہو جاتے ہیں اور چھوٹے اور گھٹیا فیصلے کرتے ہیں۔
یہی وہ ماحول ہے جس میں وفاقی وزیر اطلاعات نے بھی بھارت کو کھری کھری سنا ڈالیں ۔ اور کشمیریوں کی جائز جدو جہدا ٓزادی کی برملا حمایت کر دی۔
بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز آ نے و الا ملک نہیں ، اس کے آرمی چیف پھر بولے ہیں اور پاکستان کو دھمکا رہے ہیں کہ اس پر ایک سرجیکل اسٹرائیک کی جائے گی۔ ایسی ہی ایک سرجیکل اسٹرائیک بھارت نے کشمیر میں اپنے چند فوجیوں کے جل کر مر جانے پر کرنے کا دعوی کیا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے ساتھ پوری کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ انہیں کسی سرجیکل اسٹرائیک کے آثار تک نظر نہ آئے۔ ممبئی سانحے کے بعد بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی تھی مگر پاک فضائیہ نے چوبیس گھنٹے تک اپنی فضائی حدود کا پہرہ دیا اور بھارتی فضائیہ کو پاکستانی فضائی حدود کے قریب پھٹکنے کی جرات نہ ہو سکی۔ سابق آرمی چیف جنرل مشرف نے بھارت کویاد دلایا ہے کہ دو ہزار دو میں اس نے اپنی فوج پاک سرحد پر لا کھڑی کی تھی۔ پاکستان بھی اپنی فوج چھائونیوں سے نکال کر سرحد پر مورچہ بند ہو گیا مگر بھارت کو کسی جارحیت کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ خاموشی سے اپنی فوج واپس چھائونیوں میں لے گیا۔
بھارت کا پروپیگنڈہ ہے کہ پاکستان کشمیر کی تحریک آزادی کی پیٹھ ٹھونکتا ہے مگر فواد چودھری نے سوال کیا ہے کہ کیا برہان وانی پاکستانی تھا، کیا اس کے جنازے میں لاکھوں افراد پاکستان سے شرکت کے لئے گئے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فواد چودھری نے جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ میں اکثر ایک میڈیا بریفنگ کا ذکر کرتا ہوں جو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر پر کی تھی اور ایوان صدر میںکوئی دو سو کے قریب سینئر ترین ایڈیٹر جمع تھے۔ اس میٹنگ میں جنرل مشرف نے اعلان کیا کہ ان کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کشمیر یوں کی جدو جہد دہشت گردی ہے اور پاکستان آئندہ اپنی سرزمین ان کی حمایت کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اس پر میرے مرشد جناب مجید نظامی نے مکہ لہراتے ہوئے جنرل مشرف کو وارننگ دی تھی کہ آپ کشمیر سے غداری کے مرتکب ہوں گے تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔میں اپنے مرشد مجید نظامی کی طرف سے فواد چودھری کا مشکور ہوں کہ انہوںنے جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور قائد اعظم کی کشمیر پالیسی کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
پاکستان کو کشمیر پر ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کشمیریوں کی جائز جدو جہد آزادی کی اخلاقی ، سیاسی ، سفارتی حمایت بھی جاری رکھنی ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے ۔ بھارت نے کشمیر میں بیٹھ کر پاکستان کو کئی لحاظ سے جارحیت کا نشانہ بنارکھا ہے، وہ ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر جارحانہ گولہ باری کر کے بے گناہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کو بھی شہید کرتا ہے اور ساتھ ہی کشمیر کے دونوں دریائوں چناب اور جہلم پر بند باندھ کر پاکستان کو آبی جارحیت کا نشانہ بھی بناتا ہے۔یہ دونوں دریا سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان کی ملکیت میں ہیں مگر عملی طور پر بھارت ان کے پانیوں پر قابض ہو چکا ہے۔ اور ان کا رخ موڑ کر ہمیشہ کے لئے پاکستان کو بنجرا ور بے آب و گیاہ صحرا ور ریگستان میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی جب اس کے ڈیم پانی سے بھر جاتے ہیںاور بارشوں کا سلسلہ رکتا ہی نہیں تو وہ اپنے ڈیموں کے دروازے کھول دیتا ہے ، اس کی پیشگی اطلاع بھی نہیں دیتا کہ پاکستا نی ا ٓبادی جو سیلاب کی زد میں آئے گی، وہ انخلا کر سکے۔ اب اس نے پھر بغیر اطلاع کے ستلج اور راوی میں فالتو پانی چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے سب سے پہلے میرے علاقے قصور میں روہی نالہ طغانی کا منظر پیش کر رہا ہے ا ور یہ میں جانتا ہوں کہ اس کی وجہ سے کتنے درجن دیہات اچانک پانی کی زد میں آگئے، اسی طرح سیالکوٹ کے علاقے میں بسنتر نالہ سیلاب کی زد میں ہے۔ میں ان کالموں میں ایک آبی ماہر اقبال چیمہ صاحب کے حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ہمیں بسنتر نالہ کی کھدائی کر کے باقاعد ہ اسے نہر کی شکل میں راوی میں ڈال دینا چاہئے کیونکہ عام حالات میں بھی اس میں پانی چلتا رہتا ہے مگر مون سون کے موسم میں یہ کناروں سے اچھل جاتا ہے اور سینکڑوں دیہات کی فصلوں اور گھر بار کو تباہ کر دیتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم راوی اور ستلج کی خشکی کا رونا روتے ہیں مگر ان میں پانی پہنچانے کے لئے جو قابل عمل حل موجود ہیں،ان پر عمل نہیں کرتے۔ ان دنوں بھی اقبال چیمہ نے اپنی اور جناب شمس الملک اور میاں برکت علی لوناکی طرف سے وزیر اعظم عمران خاں سے وقت مانگ رکھا ہے ۔یہ وقت مل جانا چاہئے اور جلدی مل جانا چاہئے۔کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو برسہا برس سے پانی کی قلت پر قابو پانے کا رونا دھوناکر رہے ہیںان کی تحقیقی کتابیں اور مقالات ہیں۔ میں خود انہی کی بتائی ہوئی معلومات کی روشنی میں بیسیوں کالم تحریر کر چکا ہوں مگر کوئی ان پر عمل کرنے والاتو ہو۔ تاکہ ہم بھارت کی دو دھاری آبی دہشت گردی سے نجات پا سکیں۔
ہمارے وزیر خارجہ ان دنوں نیو یارک میں ہیں ، انہوںنے مطالبہ کیا ہے کہ ورلڈ بنک بھارت سے پانی کا جھگڑا طے کرائے ۔ا س کے ساتھ ہی ا نہیں اپنی جنرل اسمبلی کی تقریر میں برہان وانی کو باقاعدہ طور پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔بھارتی آرمی چیف ہمیں کب درد محسوس کراتا ہے ، یہ تو بعد کی بات ہے مگر ایک برہان وانی کا ذکر کر کے جناب شاہ محمود قریشی بھارت کے دل میں درد کی ٹیسیں ابھار سکتے میں ۔ یہ موقع ضائع نہ جانے دیا جاے۔وفاقی وزیر اطلاعات ایک ماحول بنا چکے ہیں، وزیر اعظم تو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں جس میں تال میل کے ساتھ کھیل جیتا جاتا ہے۔ اسی تال میل کا مظاہرہ ہمیں کشمیر پالیسی پر بھی کرنا چاہئے۔
ہم قومی دولت کی لوٹ مار کے مجرموں کا تعاقب کرر ہے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستان اوراس کی آئندہ نسلوں پر ڈاکہ ڈالنے والے مجرم جماعت علی شاہ کا بھی پیچھا کرنا چاہئے اور انہیں بھی پا بجولاں واپس لا کر بھارت کو پانی کی نعمت سے نوازنے کے جرم میں کڑی سزا دینی چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024