ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی بھارت کے خلاف دو ناکامیوں کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ٹیم کی کارکردگی پر تبصرے کر رہا ہے۔ ٹیم کامبی نیشن پر بات ہو رہی ہے۔ مکی آرتھر کے فیصلوں پر تنقید ہو رہی ہے۔ کپتان سرفراز احمد ذاتی کارکردگی اور خراب کپتانی پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ ٹیم سلیکشن پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔نیوزی لینڈ میں دو فاسٹ باولرز کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے متحدہ عرب امارات میں چار فاسٹ باولرز کے ساتھ ون ڈے میچ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ حتمی ٹیم کے حوالے سے کیے جانیواے فیصلے بھی تنقید کی زد میں ہیں۔
پاکستان ٹیم ایونٹ میں اب تک اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کرکٹرز انفرادی و اجتماعی حیثیت میں متاثر کھیل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ باولنگ ہمارا مضبوط شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایشیا کپ میں باولرز بھی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ اس شعبہ میں تیز گیند باز محمد عامر کی ناکامیوں کا سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیسٹ فاسٹ باولر سرفراز نواز کہتے ہیں کہ عامر وکٹیں لینے والی باولنگ ہی نہیں کر رہے وہ رنز روکنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ باولنگ کرتے ہوئے کریز کا استعمال اس انداز میں کرتے ہیں کہ وکٹ ملنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں وہ باولنگ کرتے ہوئے اکانومی ریٹ کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں فاسٹ باولر جب تک آوٹ کرنے والی باولنگ نہیں کرے گا وکٹ کیسے ملے گی وہ رنز روکنے والی گیند بازی کر رہا ہے اسمیں کامیاب ہے۔
کرکٹ کے تاریخ دان مجاہد حسین سید قومی ٹیم کی خراب کارکردگی پر ہمیشہ ہمیں بلا کر اپنی رائے دیتے ہیں گذشتہ روز بھی انہوں نے یاد کیا کہنے لگے سرڈان بریڈ مین کہا کرتے تھے دنیا کا کوئی بلے باز فاسٹ باولرز کو پسند نہیں کرتا سب ان سے خائف ہوتے ہیں کچھ اسکا اظہار کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے اور ہمارے پاس وہاب ریاض ہی ایک ہی گیند باز ایسا ہے جو نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باولنگ کر سکتا ہے اور ہم نے اسے ٹیم سے باہر کر رکھا ہے۔ کیا عمر اکمل کا جرم بین سٹوکس سے بھی زیادہ ہے وہ لڑائی کرتا ہے دانٹ توڑتا ہے لیکن پھر بھی انگلش ٹیم کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک طرف ہم کمزور مڈل آرڈر کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف تجربہ کاراظہر علی،کامران اکمل، محمد حفیظ اور عمر اکمل کو ٹیم میں شامل نہیں کرتے اسکا جواب کون دے گا، مکی آرتھر یا انضمام الحق اور انکے ساتھی سلیکٹرز؟؟؟مسلسل ناکامیوں کے بعد ویسٹ انڈیز کو اپنے سینئر کرکٹرز کو واپس بلانا پڑا۔ کیا چیمپئنز ٹرافی کی فتح میں اظہر علی، محمد حفیظ اور جنید خان کا کوئی کردار نہیں تھا اگر دیگر کرکٹرز اس کامیابی کی وجہ سے لاڈلے بنے ہوئے ہیں تو ان کھلاڑیوں کا کیا قصور ہے؟ قومی ٹیم ابھی تک چیمپئنز ٹرافی کی فتح کیوجہ سے ہواوں میں ہے جبکہ سارا سال ہم نے نسبتا کمزور ٹیموں کے خلاف کرکٹ کھیلی ہے اب ذرا سخت حریف سامنے آئے ہیں تو ہاتھ پاوں پھولے ہوئے ہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ہر میچ مختلف ہوتا ہے۔ حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ سرفراز احمد کی کپتانی بھی ناقص ہے کیا ایسی کارکردگی کے ساتھ وہ عالمی کپ دوہزار انیس تک اپنی جگہ برقرار رکھ سکتے ہیں؟
قومی ٹیم کی حالیہ کارکردگی باعث تشویش ہے لیکن پھر بھی بعض لوگ خاصے پر امید ہیں کہ گرین شرٹس ایشیا کپ جیت جائیں گے۔ یہ کھلاڑی گذشتہ کچھ عرصے سے اکٹھے کھیلتے ہوئے اچھے نتائج دے رہے ہیں بھلے مخالف کمزور ہی تھے لئکن نتیجہ اچھا تھا۔ ایشیا کپ میں فخر زمان سے رنز نہیں ہو رہے، اننگز کے درمیانی حصے میں بریک تھرو دینے والے حسن علی بھی اپنا کردار نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ مڈل آرڈر میں اچھی شراکت کا نہ ہونا بھی شکست کی وجہ ہے۔ جنید خان کو موقع نہ دینا بھی ناانصافی ہے۔ پلینگ الیون میں غیر ضروری تبدیلیوں سے بھی اعتماد خراب ہوتا ہے۔حارث سہیل کو شامل کیوں کیا جاتا ہے اور پھر باہر کیوں بٹھایا جاتا ہے، فہیم اشرف اگر ہماری پہلی چوائس ہیں تو وہ باہر کیوں ہوتے ہیں۔ اگر ٹیم میں رہنے کا پیمانہ صرف پرفارمنس ہے تو محمد عامر کس پرفارمنس کی بنیاد پر کھیل رہے ہیں۔ کیا ہمیں ایسے کھلاڑیوں کو منتخب کرنا چاہیے جو ٹیم میں آنے کے دو سال بعد تک بنیادی چیزیں سیکھتے رہیں یا پھر ہمیں ماہر کھلاڑیوں کو منتخب کرنا چاہیے۔ کیا ٹیم پاکستان تجربہ گاہ ہے یا ٹریننگ سنٹر؟؟ ہم آنیوالے میچز میں کامیاب ہوں یا ناکام لیکن ہمیں اپنے نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہونگے۔ حادثاتی کامیابیوں اور مسلسل اچھے کھیل کا مظاہرہ کرنے والوں میں فرق کرنا ہو گا۔ قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جانیوالے قائداعظم ٹرافی کے ایک میچ میں فواد عالم نے فیصلہ سازوں کے کمروں کے سامنے لاہور ریجن کے خلاف ایک اور تھری فگر اننگز کھیل دی ہے شاید یہاں سے سلیکشن کمیٹی والوں تک خبر جلد پہنچے گی۔ یقینا وہ کہیں گے بے کار کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ وہ کامران اکمل کو خود کو زخمی کرنے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں۔ احسان مانی کے نئے پاکستان میں بھی پرانے انداز میں کام جاری ہے۔ سلیکشن کمیٹی کے رکن توصیف احمد کو پاکستان اے ٹیم کا مینجر بھی مقرر کر دیا گیا ہے یوں وہ چند دن کے لیے دوہری ذمہ داریاں نبھائیں گے۔کہیں وہ سلیکشن کریں، کہیں کوچنگ اور بوقت ضرورت مینجر بن جائیں۔ کیا کرکٹ بورڈ کو تجربہ کار ٹیم مینجر اظہر زیدی نظر نہیں آتے جبکہ وہ اس سے پہلے پاکستان ٹیم، اے ٹیم، انڈر نائینٹین اور اکیڈمی ٹیموں سمیت ہر سطح پر بہترین انداز میں یہ کام کر چکے ہیں۔ دوسری طرف سجاد اکبر کو اے ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا ہے سجاد اکبر ان دنوں لاہور بلیوز کی کوچنگ کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور انکی کوچنگ میں ٹیم تین چار روزہ میچ ہار چکی ہے جبکہ تین میں سے دو ون ڈے میچوں میں بھی انکی ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہیں اس اعلی کارکردگی کے اعزاز میں اے ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سیزن میں تین چار روزہ میچ جیتنے والی پشاور کی ٹیم کے ہیڈ کوچ عبدالرحمان کو سجاد اکبر کا اسسٹنٹ مقرر کیا گیا ہے۔ جس نے زیادہ میچ جیتے ہیں وہ اسسٹنٹ ہے اور جس نے زیادہ ہارے ہیں وہ ہیڈ کوچ ہے یوں ہیڈ کوچ بننے کا یہ نیا معیار مقرر ہوا ہے آپ ہارتے جائیں ہم نوازتے جائیں گے۔ کیا نئے پاکستان میں بھی پرانے طریقوں سے ہی کام ہو گا۔ جب کوچز کا انتخاب ایسے ہوتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پلیئرز کا انتخاب میرٹ پر ہوتا ہو گا؟؟؟ جس طرح ایک میچ کی کارکردگی پر کھلاڑی کئی میچ کھیل جاتا ہے ویسے ہی ایک ٹورنامنٹ کی اچھی پرفارمنس پر کوچ کو نوازنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا چاہتا ہے۔لاہور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی ٹیموں کی قائداعظم ٹرافی میں کارکردگی کے حوالے سے آئندہ بات ہو گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024