خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے
پاکستانی تاریخ کے حوالے سے ذہن میں مختلف خیالات آرہے تھے ۔اچانک دماغ میں چمک سی اُٹھی ۔ پی ٹی آئی کی نئی حکومت کے حوالے سے جسے ابھی تقریباً چالیس دن ہونے کو آئیں ہیں گویا مجھے پرانی بس کے نئے ڈرائیور عمران خان کی صورت میں نظر آئے اور میں یہ سوچ میں پڑ گیا کہ پاکستان جس گاڑی کا نام ہے وہ 1947ء کا ماڈل ہے اور اس گاڑی کو چلتے ہوئے 71برس ہوگئے ہیں اور یہ گاڑی کبھی بھی کسی ایک ڈرائیور نے زیادہ عرصے تک نہیں چلائی اور اکثر و بیشتر جس نے بھی چلائی ہے اُس کو یا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں کیونکہ اگر پاکستان کی اس گاڑی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو قائد اعظم کے علاوہ جتنے بھی ڈرائیور ز نے یہ گاڑی چلائی ہے ان کی داستان بھی المیوں سے بھرپور ہے پچھلے 10برس سے اس گاڑی کو چلانے والے جو 2 صاحبان تھے آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف رہے ان صاحبان نے گاڑی کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے اور اس گاڑی میں سوار غریب عوام کی جو حالت ان لوگوں نے بنائی ہے وہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کیا حال ہے اس گاڑی کا جس کو کہ جب سٹارٹ کیا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ یہ گاڑی عوام کے لئے ہوگی عوام کی سہولت کے لئے ہوگی عام آدمی کو اس سے آسانیاں ملیں گی مگر سوائے چند خاندانوں کے اس گاڑی سے عام آدمی کو کوئی زیادہ فائدے حاصل نہیں ہوسکا گاڑی کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کی وجہ جو اس کے نگران تھے ۔ اب جب 10برس کے بعد اس 71سالہ پرانی گاڑی کو ایک پڑھا لکھا ڈرائیور ملا ہے تو یہ لوگ اُس ڈرائیور کے بارے میں کھسر پھسر کرنے لگ پڑے ہیں کہ جی اس کو کیا پتا کہ گاڑی کیسے چلائی جاتی ہے ہم لوگوں کو 30برس ہوگئے ہیں اور ہم لوگ ابھی تک مکمل طور پر اس گاڑی کو چلانے پر عبور حاصل نہیں کر سکے تو یہ جو عمران خان ڈرائیو نگ سیٹ پر بیٹھ گیا ہے اس کو تو منزل کا بھی نہیں پتا اس کو تو راستوں کا بھی نہیں علم یہ بھلا کیسے پوری قوم کو با حفاظت طریقے سے ترقی کی منزل پر پہنچا پائے گا اس کے پاس گاڑی چلانے کے لئے نہ پیسے ہیں ،نہ غریب لوگوں کے پاس جو سواریاں اس میں بیٹھی ہوئی ہیں اُن کی اتنی استعدا د بھی نہیں ہے کہ وہ اس گاڑی کا کرایا پوری طرح ادا کرسکیں اور اگر اس نئے ڈرائیور نے اس گاڑی کو اوور حال اور سروس کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے تو یہ اس کے گلے نہ پڑ جائے کیونکہ اس کو تو کوئی تجربہ ہی نہیں ہے اس کو گاڑی کے انجن کی سمجھ نہیں ہے اس کو کاربوریٹر کا پتا نہیں ہے اس کو ویل الانمنٹ کی کوئی سمجھ نہیں ہے یہ بھلا کیسے گاڑی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے گا اور ابھی جیسا کہ آپ کو میں نے بتا یا کہ چالیس دن ہوئے ہیں اور اس نئے ڈرائیور نے گاڑی کو ورک شاپ میں لاکر کھڑا کر دیا ہے اور مکینک سے اسٹیمیٹ یا تخمینہ لگوا رہا ہے کہ اس گاڑی کی مرمت کرنے اور اس کو دوبارہ روڈ پر لانے کے لئے کتنے اخراجات آئیں گے لیکن ایک بات میں اپنے ان تمام پرانے صاحبان سے کہنا چاہوں گا جو کہ خود کو پاکستان کی گاڑی چلانے کا ماہر تصور کرتے ہیں اور جن کے ذہنوں میں یہ خلل ابھی تک موجود ہے کہ ہمارے بغیر یہ گاڑی نہیں چل سکے گی میں ان لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں اور اپنی پوری گاڑی کی سواریاں جو کہ پوری 20کروڑ سے زیادہ ہیں اُن میں امیر بھی ہیں غریب بھی ہیں سچے بھی ہیں، جھوٹے بھی ہیں، ایمان دار بھی ہیں، ٹکٹ لے کر بیٹھے ہوئے بھی ہیں، بغیر ٹکٹ کے بھی ہیں، ان سب کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ انشاء اللہ یہ گاڑی جب ورک شاپ سے تیار ہوکر نکلے گی تو ترقی کی نئی منزلوں کو یہ چھوئے گی کیونکہ اس کی حفاظت پر معمور اس کے چیف سکیورٹی بھی انتہائی جانباز قسم کا انسان ہے اور اس گاڑی کا جو ٹکٹ چیکر ہے وہ بھی بڑا ایماندار اور عدل و انصاف کرنے والا انسان ہے ۔آپ لوگ فکر نہ کریں یہ گاڑی چلتی رہے گی اور جس نے جو مال لوٹا ہے وہ واپس کرنا پڑے گا اور اگر آپ لوگوں نے ایسا نہ کیا تو پھر یہ ڈرائیور یہ سکیورٹی چیف اور یہ ٹکٹ چیکر آپ کو نہیں چھوڑیں گے آپ کا احتسا ب ہوگا اور آپ لوگوں کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا وقتی طور پر کچھ عرصے کے لئے عام سواریوں کو بھی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی کیونکہ سابقہ ڈرائیوروں نے اس گاڑی کا بیڑا غرق کر دیا ہے اس لئے کچھ عرصے کے لئے عام سواریوں کو یہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی مگر انشا ء اللہ بہت جلد یہ گاڑی بڑی شان اور شوکت کے ساتھ شاہر ہ ترقی پر گامزن ہوگی اور یہ گاڑی پوری پاکستانی قوم کو ایک باعزت مقام اور ترقی یافتہ منزل تک لے کر جائے گی اور پھر کوئی آنے والی آئندہ نسلوں کے سہانے مستقبل کو لوٹ سکیں گے نہ اس کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے ۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
وطن عزیز ان دنوں سخت ابتلا کے دور سے گزر رہا ہے پاکستان جس طرح تعمیر و ترقی کی طرف سفر کر رہا ہے وہ ترقی دشمن کو کھٹکتی ہے،جب سے وزیر اعظم سعودی عر ب کے کامیاب دورے سے لوٹے ہیں،جب سے سی پیک میں سعودی عرب نے تیسرے پارٹنر بننے کی رضامندی کا اظہار کیا ہے اس وقت سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ پڑنا شروع ہو گئے ہیں بھارتی فوج کے سربراہ کی طرف سے جارحیت کی دھمکیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں،پوری قومی سیاست اور قوم نے دفاع وطن کیلئے جس بے مثال اتحاد کا اظہار کیا دشمن اس کی قوت نا واقف ہے بھارت کو 1965کی 17روزہ جنگ اوراس کا نتیجہ یاد رکھنا چاہیئے۔