خوش آئندانسداد تجاوزات مہم
گذشتہ چند روز سے اسلام آباد جی- 12کشمیرہائی وے پر تجاوزات کے خاتمے کے لئے سرکاری زمین واگزار کرانے کے لئے سی ڈی اے کے عملے نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ پولیس ،رینجرز کی مدد سے گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا۔جس کی نگرانی خود وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے کی اس موقعہ پر واضع طور پر کہا کہ کسی دبائو میں نہیں آئیں گے۔جی - 13کے سامنے ایچ - 13میں پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت کے پیٹرول پمپ کے ساتھ بین الاقوامی برانڈ کی چین کی بلڈنگ کو جس طرح توڑا گیا اس سے ایک واضع پیغام ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اب یا کبھی نہیںکے فارمولے پر عمل کر رہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقعات نے بتایاکہ تقریباََ 70 ہزار کنال سی ڈی اے کی زمین واگزار کرانی ہے اس لئے کسی کا کوئی دبائو خاطر میں نہ لائیں گے۔اسلام آباد کے شہریوں نے پہلی دفعہ دیکھا کہ آئی سی ٹی انتظامیہ ،سی ڈی اے کا عملہ،پولیس اور رینجرز کے ہمراہ داخلہ کے وزیر موقعے پر موجود ہیں۔این اے 54 اسلام آباد کا حلقہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا ہے جن کا اچھا یا پھر برا کوئی رد عمل سامنے نہ آیا اس کا مطلب ہے کہ جس سطح پر فیصلہ ہوا وہاں ان کی رضا مندی بھی شامل ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا سے ملاقات میں کہا تھا کہ مجھے تین ماہ کا وقت دیا جائے پھر تنقید کے دروازے کھلے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ جو حکومت میں آنے سے قبل ’’سو دن ‘‘ کا اصل پلان تھا اس میں سرکاری زمین حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن اسلام آباد کے علاوہ پورے پاکستان میں شروع ہو گیا۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے بقول اگر واقعی ستر ہزار کنال سی ڈی اے کی ایوارڈ یافتہ زمین واگزار ہو گئی تو پاکستان کا کوئی بھی بلڈر آسانی سے صرف اسلام آباد میں پانچ لاکھ رہائشی یونٹ قائم کر کے آسان اقساط پر بنک لیز ینگ کے ساتھ دس سے پندرہ ہزار ماہوار قسط پر دے سکتا ہے۔حکومت صرف سبسیڈی اتنی ہی دے کہ زمین ذرا کم قیمت پر بلڈرز کو دیں۔اس طرح پاکستان کے دس بڑے شہروں میں با آسانی پچاس لاکھ مکان تعمیر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ایک کروڑ نوکریاں آسانی سے مل جائیں گے،بہت تعمیری قابل عمل منصوبہ ہے۔اسلام آباد کے اندر تجاوزات بھی ایک مافیا ہے۔جس کو سیاسی حکومتوں ،لیڈروں اور سی ڈی اے کے اہلکاروں کی حمایت ضرور رہی ہے،مگر اس میں ان لوگوں کا کیا قصور ہے؟جنھوں نے اپنی زندگی کی کمائی لگائی ہے۔سی ڈی اے کی حد کے اندر اگر واقعی ستر ہزار کنال وہ زمین جس کا ایوارڈ ہو چکا ۔پیمنٹ ہو چکی مگر سی ڈی اے اپنی مجرمانہ غفلت کے ساتھ قبضہ حاصل نہ کر سکا یا پھر برقرار نہ کر سکا ،دونوں صورت میں ادارہ ذمہ دار ہے۔اسی کے علاوہ ان علاقوں پر سٹام پیپروں کے ذریعے خریداری ہو رہی ہے۔جس میں مالکان بہت اعتماد اور یقین سے کہتے ہیں کہ ہم نے تو پیمینٹ لی نہیں ،قبضہ بھی نہیں دیا۔خریدار کو یقین ہوتا ہے کہ سی ڈی اے کی یہاں عملداری ہی نہیں پھر اکثر ایسے معاملات میں ڈیل کرانے والے لوگ ادارے کے ہوتے ہیں۔ایسے معاہدوں اور سٹام پیپروں کی بھی تحقیقات کرائیں۔اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں ایسا کاروبار بہت ہوتا ہے۔آخر میں وہ غریب نقصان اُٹھا تا ہے جس کی زندگی کی کمائی لگ گئی ہوتی ہے۔اگر کسی دبائو، مصلحت کے تحت آپریشن رک گیا تو بھول جائیں کہ اسلام آباد سے تجاوزات ختم ہو سکتی ہیں۔اگر حکومت مرحلہ وار اس کا حل کرتی، کہ پہلے آسان ترین ہدف مکمل کرتی بہر حال اس میں انتظامیہ ،حکومت اور عدلیہ کی ایک ہی سوچ ہے۔وکلا برادری کو بھی نوٹس ہوا کہ فٹ بال گرائونڈ ایف 8 خالی کریں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلاکو ایک دن نوٹس دیا۔رہائشی علاقوں سے دیگر ہائوسیز کی کمرشل ایریا میں منتقلی کا بھی حکم دیا گیا۔اسلام آباد میں سی ڈی اے کا ادارہ ہے ،کارکردگی سامنے ہے ۔اسلام آباد صرف معائینہ کریں تو کارکردگی صاف ظاہر ہو گی۔فیصل مسجد سے سگنل فری روڈ کے ذریعے کورال چوک ائیر پورٹ تک اگر صرف لینڈ اسکیپنگ ،پھول اور پودے گرین ایریادیکھیں تو سر پکڑ لیں اور دوسری تصویر صرف کورال چوک کے ساتھ ہی آئی بی کوپریٹیو ہائوسنگ سوسائٹی کی سکیم گلبرگ گرین کو دیکھیں ،ایکسپریس وے کے انڈر پاس سے کشادہ ڈبل روڈ سے پراجیکٹ کو دیکھیں تو صاف فرق نظر آئے گا۔حالانکہ گلبرگ گرین میں چند درجن مالی اور لیبر ہوں گے۔مگر سی ڈی اے میں چوبیس ہزار ملازمین ہیں،کسی سے کام لینے کے لئے کام آنا بھی چاہئے،کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سکیم میں کوئی تجاوزات نہیں ہیں،ماحول بہت اچھا ہے۔اسلام آباد ایکسپریس وے فیض آباد سے لے کر روات ،ٹی چوک تک سڑک کے اطراف چھ سو فٹ کا چوڑا رائیٹ آف وے ہے۔تقریباََاٹھائیس کلو میٹر طویل ہے اگر سگنل فری روڈ بن جائے ،میٹرو بس اور اورنج ٹرین کا اضافہ ہو جائے تو سڑک کے اطراف چھ سو فٹ چوڑی پٹی پر کمرشل بلڈنگز بن سکتی ہیں۔جہاں پارکنگ کی وسیع سہولتیں دی جائیں اس طرح زیروپوائنٹ سے نیو ایئر پورٹ موٹروے کی طرف اگر روڈ سگنل فری ہو جائے ،اطراف کے چھ سو فٹ چوڑے رائیٹ آف والے پر تقریباََتیس کلو میٹر کی کمرشل پٹی بن سکتی ہے۔صرف ان دونوں کمرشل منصوبوں پر تقریباََپانچ لاکھ سے زائد چھوٹے رہائشی فلیٹس بن سکتے ہیں۔کمرشل دوکانوں / دفاتر سے کھربوں کا ریونیو اکھٹا ہو سکتاہے۔اللہ کرے پی ٹی آئی گورنمنٹ عملاََاقدامات کا آغاز کرے۔پاکستان میں ترقی ،خوشحالی،امن ،روزگاراور کاروبار کے نئے دور کا آغاز ہو،اسلام آباد کو حقیقی دارالحکومت بنائیں۔