جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
غربت کتنا بڑا جرم ہے یہ تو بھوک و افلاس کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب کر صدیوں سے موت سے پہلے ہر روز مرنے والے تیسری دنیا کے انسان اچھی ظرح جانتے ہیں مگر ڈگریوں کا بوجھ اپنے سروں پر اٹھا کر خط غربت سے نیچے زندگی کی شاہراہوں پر اپنی بقا کے لیے رینگنے والوں کا سفر کس قدر کٹھن ، جان گسل اورازیت ناک ہوتا ہے یہ بے روزگاری کے صحرائوں کی کڑکتی دھوپ میں لوُکے تھپیڑے سہنے والے کسی پڑھے لکھے نوجوان کا دل ہی بتا سکتا ہے کہ اسکے کرب اور تھکاوٹ کا احساس دور یا قریب سے دیکھنے والوں کو کبھی ہو ہی نہیں سکتا ۔اپنی ایلیت و قابلیت کو سفارش، رشوت اقربا پروری و ناانصافی کے اژدہائوں کے بے رحم جبڑوں میں سسک سسک کر مرتا ہوا دیکھنا کتنا تکلیف دہ عمل ہے یہ بھی اپنی محنت سے ہڈیوں کا گودا جلا کر ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی رشوت و سفارش کی استطاعت سے محروم ہونے کی بنا پر بے روزگاری کی گہری کھائیوں میں پھینک دیے جانے والے کسی غیریب کا دل ہی بتا سکتا ہے ۔خالی جیب کے ساتھ معاشرے سے انسانیت کا رشتہ برقرار رکھنا کتنا مشکل ہے یہ بھی اپنے ارمانوں او ر انا نیت بلکہ انسانیت کو صبح شام اپنے ہاتھوں سے زبح کرنے والے کسی مفلس کا دل ہی بتا سکتا ہے کہ طعن و تشنیع کے برستے تیروں کو اپنے سینے پہ سہہ کر بے بسی و بے کسی کی دلدل میں دھسنے والے کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھانے کی بجائے خونی رشتے بھی تماشائی بن جاتے ہیں دلدل اسے دیکھتے ہی دیکھتے نگل جاتی ہے۔پینتیس سالہ نورب نواز میرے اس پسماندہ خطے کا سپوت تھا جس میں زندگی دیکھنے والوں کو جنت مگر بسر کرنے والوں کو آج بھی جہنم دکھائی دیتی ہے ۔ وطن عزیز کے دو سابق اور ایک موجودہ وزرائے اعظم نے اسے جنت نظیر بنانے کے پر فریب دعوے اور نعرے بھی رب نواز اور اس جیسے سینکڑوں نوجوانوں کو غربت و افلاس کی جہنم سے نکالنے میں کارگر ثابت نہ ہوسکے ،یہاں کے مقامی نمائیندے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر بھی غربت و افلاس کے گھپ اندھیروں میں بال برابر کمی نہ لاسکے ۔میٹرک سے ایم اے تک نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والا نوجوان ہماری آنکھوں کے سامنے سمندروں سے گہرے کرب اور ا زیت کو اپنے سینے میں چھپا کر چہرے پر اداس مسکراہٹ سجائے روزگار کی تلاش میں دھکے کھاتاکھاتااس عمر کو پہنچ گیا جہاں اس کے ماتھے پر پھولوں کا سہرا سجنا تھا مگر ناہموار معاشرے کی بے حسی اور ظلم و استبداد کی بنیادوں پر کھڑے کھوکھلے نظام نے اسے سفید کفن میں اپنی ڈگری سمیت لپٹ کر زندگی کی سرحدوں سے فرا ر ہو کر عالم آب و گل سے عدم کی اس وادی کی جانب ہجرت پرمجبور کر دیا جہاں ہر آدمی کا گھر چھ فٹ مٹی کا گڑھا ہے جس میں پہنچ کر اسکا وہ احساس محرومی بھی اپنے اختتام تک پہنچ گیا جس کے زہر نے اسکی رگ و پے میں سرائیت کر کے ہر امنگ ہر خواہش ہر تمنا کو ایسی اداسی و بے چینی میں بدل دیا تھا جسکاعلاج بالآخر ملک الموت نے اسے زندگی کی قید سے آزاد دی دے کر کیا۔ بد قسمتی کی انتہا دیکھیے کہ اس جدید دور میں جہاں سائینس و ٹیکنالوجی ترقی کی انتہاوئوں کو چھو رہی ہے ہماری قوم اور اسکے نمائیندے ووٹ بیچنے اور خریدنے کے نت نئے طریقوں سے نہ صرف خود روشناس ہوچکے بلکہ قوم کے نوجوانوں کو تعلیم و حکمت کی بجائے مخالفین کو سب و شتم کرنے اور بہتان تراشی کے طریقے سکھانے کے لیے کنونشن منعقد کروا رہے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوان اپنی ڈگریوں کے بوجھ تلے دب کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں مگر اسکے مسائل کا حل کسی جماعت کے منشور کا حصہ ہے نہ ہو گا ۔اگر ہم نے اپنی مسلمانیت کو تھوڑا سا بھی پہچان لیا ہوتا تو یہ زلت و ازیت جسے ہم مقدر سمجھ کر قبول کر چکے کبھی ہمیں چھو بھی نہ سکتی مگر ہم جب سے اس حقیقت سے ابھی تک ناآشنا ہیں کہ مسلمان کے پاس ایک ایسی کتاب ہے جس میں باعزت زندگی گزارنے اور دنیا میں اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے وہ نایاب طریقے موجود ہیں کافر جنھیں اپنا کر ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں اور ہم منگتے بن کر پوری دنیا کے آگے ہاتھ بھیلائے کھڑے ہیں مگر ضروریات پھر بھی پری نہیں ہو رہی اور ہمارے ملک میں بجلی و گیس کی قیمتوں کا تعین IMFطے کررہا ہے اسلیے کہ ہم یسکے مقروض ہیں۔
تاریخ کے طالب علموں بالخصوص مسلمان نوجوانوں کی دلچسپی کے لیے عرض کرتا جائوں کہ تاریخ کے سینے میں ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ اس دنیا میں ترقی یافتہ کہلوانے والی قوموں کے معروف رہمنائوںLenin اورKarl Marxنے اقتصادیات و معاشیات حتیٰ کہ معاشرت کے جو نظریے پیش کر کے انقلاب برپا کیے وہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نظریہ ء اقتصادیات و معاشیات جو انھوں نے قرآن کریم سے اخذ کر کے اپنی شہرہ آفاق کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بیان کیے تھے من و عن کاپی کر کے اسکو انگریزی میں شامل کر دیا اور جہاں اللہ اور قرآن لکھا تھا انھیں مٹا کر اپنے نام لکھ دیے ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے جس سے کوئی باخبر انسان انکا ر نہیں کر سکتا کہ آج بھی یورپ کے 36ملکوں بالخصوص یوروپین یونین کے تمام ممالک اسی حجۃ اللہ البالغہ کو انگریزی میں ترجمہ کر کے اپنی معشیت و معاشرت کو اسکے مطابق ڈھال کر اپنی سرزمینوں کو خوشحالی و امن کا گہوارہ بنا چکے اور اس جانب عالم یہ ہے کہ جس مصنف اور اسکی کتاب مغرب کی معیشت کی بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کتاب تو دور مصنف کا زکر بھی نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں اور اگر کہیں ہے بھی تو محض ایک مولوی کی حیثیت جسے ہم رجعت پسند کہہ کر کب کے ٹھکراچکے حالانکہ شاہ ولی اللہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے قرآن کا ترجمہ کیا اور قرآن سے ہی نظریہ ء اقتصادیات پیش کیا ۔وہ نظریہ کتنا سادہ اور عام فہم ہے کہ ریاست کے اندر رہنے والے ہر شخص کی بنیادی ضروریات جیسے کہ روٹی کپڑا اور مکان ریاست کی اولین زمہ داری ہے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر ریاست مدینہ قائم ہوئی تھی اور ریاست کے حکمرانوں نے اپنی تنخواہیں اور مراعات مدینہ کے مزدوروں کے مساوی طے کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ لوگوں کے ٹیکس سے اکٹھا کیا گیا مال انھی پر خرچ کرنا اور غریبوں کے خورد و نوش کا سامان اپنے مقدس کندھوں پر اٹھا کر انکی دہلیزوں تک پہنچانا ہی Good governancکی اصل روح ہے ۔
میری ملک کے" اصل" حکمرانوں سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اللہ کے لیے ا ب جب آپ نے ملک کو "غداروں ، بد عنوانوں" اور" وطن دشمنوں "سے پاک کر کے قوم کے" ہر دلعزیز رہنما" کو مسند ِ اقتدار پر بٹھا ہی دیا ہے تو اس کے کان میں اتنی بات بھی ڈال دیں کہ سب سے پہلے بھوک و افلاس کے " سونامی "کے آگے کوئی" ڈیم" بنا نے کی تدبیر کرو جسکی بے رحم موجیںاس دیس کے انسانوں کو ستر سال سے نگل رہی ہیں اور انکے دو وقت کی باعزت روٹی ریاست کے زمہ لے لو تو وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے لیے کسی RTS"ــ"سسٹم کی ضرورت پڑے گی نہ ہی مشرف کے وفادار وزیروں میں وزارتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹنی پڑیں گی بلکہ یہ قوم کندھوں پہ بٹھا کر آپ کو اقتدار کے ایوانوں تک لے جائے گی ۔نہ یقین آئے تو یورپ کے ترقی یافتہ ممالک سے پوچھ لو وہ اپنے بے روزگار شہریوں کو روزگارملنے تک ہاہانہ خرچہ گھر پر پہنچاتے ہیں جو کہ مدینے والے سردار محسن انسانیت ؐکا فلسفہ ہے جو آپ کو شاہ ولی اللہ جیسے رسول کریمؐ کے سچے غلاموں سے ملے گا جسے چرا کر مغرب اتنی ترقی کر گیا تو سوچیے آپ اسے اپنا کر کہاں پہنچ سکتے ہیں ۔