بھارتی بوکھلاہٹ
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیںہے۔جب سے پاکستان بناہے بھارت نے سرے اسے قبول نہیں کیا ہے اورجہاں اسے موقع ملا ہے اس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے مختلف جنگیں بھی اسی بناء پر ہو چکی ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا مگر اس کو ہمیشہ پاکستان کی کمزوری سمجھا گیا ۔ پاکستان میں نئی حکومت تحریک انصاف کی ا ٓ چکی ہے جو نئے سرے سے خارجہ پالیسی ترتیب دینے جا رہی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلے ہی بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی جس کا بڑی سوچ بیچار کے بعد بھارت نے پہلے مثبت جواب دیا اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر وزراء خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا آغاز ممکن ہوتا ہوا نظر آیا مگر بھارت نے ایک بار پھر وہی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ۔دو روز بعد ہی بھارت نے منفی ردعمل ظاہر کرکے ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا ۔ بھارت کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں تھا کیونکہ بھارت کو ڈر ہے کہ مذاکرات کی میز پر آنے سے اس کی وحشیانہ پالیسی جاری نہیں رہ سکے گی کیونکہ اس وقت بھارت دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے ۔ پاکستان نے پہلا سوال ہی اس سے یہ مظالم روکنے کیلئے کرنا تھا جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر اصل میں دیکھا جائے تو انگریزوں کا چھوڑا ہوا ہے جنہوں نے غلط تقسیم کرکے کشمیریوں کی آزادی پر شب خون مارا ہے ۔ سالہا سال سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک آگ کی دیوار قائم ہے جسے بجھانے کیلئے پاکستان نے ہمیشہ پہل کی مگر بھارت قابض ہونے کا ہر بار ثبوت دیتا آ رہا ہے ۔اقوام متحدہ کے اجلاس سے قبل سے بھارت نے جب کوئی بات نہ بن پائی تو اپنے آرمی چیف کو پاکستان کے خلاف بیان دینے کیلئے آگے کر دیا ۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس کا شدید ردعمل دیکر یہ واضح کر دیا کہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور علاقہ پر اجارہ داری کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی ۔ عمران خان نے مودی کا نام لئے بغیر ہی اسے عقل سے عاری قرار دیکر یہ تاثر دیا ہے کہ بھارت خطہ میں امن کیلئے خطرہ ہے اس کے ساتھ ہی پاک فوج کے ترجمان نے بھی بھارت کی للکار کا جواب ٹھیک طرح سے دیا اور ہندوستان پر واضح کر دیا کہ امن ان کی اولین ترجیح ضرور ہے مگر اس ساتھ ساتھ پاکستان ہمیشہ جنگ کیلئے بھی تیار ہے بھارت کسی خوش فہمی میں نہ رہے ۔ شہباز شریف نے بھی بھارت کو چیلنج کر دیا ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کیساتھ اور عالمی دنیا میں یہ مسئلہ اٹھانا چاہئے اور بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے ۔ اس وقت پورا خطہ بھارت کے مظالم اور اس کی غیر اخلاقی رویہ کی وجہ سے آتش فشاں بنا ہوا ہے ۔ لگتا ایسا ہے عالمی طاقتیں بھی بھارت کے حق میں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں ان کے درمیان کسی قسم کی محاذ آرائی پوری دنیا کیلئے خطرہ بن سکتی ہے ۔ چین ٗ روس ٗ ایران ٗ افغانستان اس خطہ میں اہمیت کے حامل ممالک ہیں ۔ امریکہ واحد سپر پاور ہونے کی وجہ سے اس خطہ میں اپنی تھانیداری قائم کرنے کیلئے یہ چاہتا ہے کہ ان ممالک میں شورش رہے تاکہ وہ ان کو مضبوط نہ ہونے دے ۔ پاکستان کا اسی فیصد بجٹ فوجی اخراجات پر ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ بھارت ہے جو اس وقت افغانستان میں امریکی شہ پر بیٹھا ہوا ہے ۔ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے اس وقت بھی بلوچستان میں اس نے انتشار پھیلایا ہوا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان اس حوالے سے شورمچاتا ہے تو پھر امریکہ انجان بن جاتا ہے ۔جب بھارت کوئی بھی خود ساختہ دہشت گردی کی واردات اپنے ملک میں کرتا ہے تو پھر امریکہ اس کی پشت پر کھڑ ا ہو جاتا ہے اور اس نام نہاد دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت میں آگے آگے ہوتا ہے ۔پاکستان پچھلے کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے اور کئی مواقع پر بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی پیش کئے گئے مگر امریکہ سمیت عالمی برادری گونگی ٗبہری اور اندھی بنی ہوئی ہے ۔ ایران ٗ افغانستان اور روس کا جھکائو بھی بھارت کی طرف ہے اس لئے اس خطہ میں سوائے چین کے پاکستان کا کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے ۔ ان ممالک کو اعتماد میں لینے کیلئے از سر نو خارجہ پالیسی بنانا ہوگی ۔ ایسی خارجہ پالیسی ہونی چاہئے کہ جس سے فوج اور حکومت ایک صفحہ پر ہو۔ماضی کی طرح نہ ہو کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھارتی وزیراعظم مودی کو عزت دے رہا ہو اور بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو ان کے اپنے ذاتی تعلقات ہیں ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس سے میاں صاحب کی نیک پر شک کیا گیا بھارتی جاسوس پکڑا گیا ۔اس بارے میں بھی کوئی واضح تصویر سامنے نہیں ا ٓ رہی ہے ۔
خارجہ پالیسی ایسی بنائی جائے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو ۔ ذاتی تعلقات کوئی رکھنا چاہتا ہے تو ضرور رکھے مگر اس کو ملکی مفاد پہلے مقدم رکھنا ہوگا ۔ خارجہ پالیسی سیاستدان بنائیں توبہتر ہے ۔ ماضی کی طرح نہ ہو کہ کوئی پتہ ہی نہ چل سکے کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے ۔ بھارت کے ساتھ تعلقات مشکل ترین خارجہ پالیسی ہے مگر اس میں بھی ہمیں اپنے دوست ممالک کی مدد حاصل کرنا چاہئے ۔ جنگ کی زبان سے مسائل کبھی ختم نہیں ہونگے بھارت کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کی بجائے اصل صورتحال سے آگاہ کرے ۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے آج نہیں تو کل اسے یہ چھوڑنا پڑے گا ۔ بندوق کے زور پر کبھی وہ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتا ہے ۔ پاکستان ہر فورم پر بھارت کے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے مسلمانوں ٗ عیسائیوں اور دیگر ذاتوں کے خلاف مظالم کو اچھالے اور دنیا کو بھارت کی سیاہ جمہوریت کی اصل شکل دکھائے ۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا پارلیمنٹ کو مضبوط کرکے تمام معاملات یہاں سے حل کئے جائیں اور خارجہ پالیسی کی منظوری بھی پارلیمنٹ سے لی جائے۔