پاکستان میں قانون کی حکمرانی، اداروں کو سیاسی مداخلت و بدعنوانی سے پاک اور اَمن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنا بڑے چیلنچز ہیں جن کو قبول کر کے سو فیصد عملدرآمد کرانا اْس سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ سب کچھ اْسی وقت ممکن ہے جب کسی ادارے کاسربراہ ایماندار ، محنتی اور نیت کا صاف ہو۔ کوئی بھی معاشرہ اْس وقت تک ترقی نہیں پاسکتا جب تک وہ مندرجہ بالا چیلنجز کو قبول کر کے اْن پر عبور حاصل نہیں کرتا۔ کسی ادارے کا رْخ تبدیل کرنا محض ایک دعویٰ رہ جاتا ہے جب تک اْس پر صدقِ دل سے عملدرآمد نہ کروایا جائے۔اگرمحکمہ پولیس کی بات کیجائے تو دورِحاضر میں پولیس نظام میں اصلاحات کی اَشد ضرورت ہے۔ اصلاحات کے ذریعے نظام کی تبدیلی کا تعلق محض بیانات نہیں بلکہ عمل سے ہے۔ اگر شہرِ لاہور میں عام انتخابات سے لیکر محرم الحرام تک امن و امان، پولیس اصلاحات اور پولیس اہلکاروں کی ویلفیئر کی بات کی جائے تو سو فیصد کریڈٹ لاہور پولیس کی قیادت کو جاتاہے۔ عام انتخابات سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کی 13 جولائی کو لاہور آمد پر لاء اینڈ آرڈر کی جو صورتحال پیدا ہوئی لاہور پولیس کی قیادت نے شہریوں کے اعلیٰ مفاد میں صورتحال کو انتہائی خوبصورتی سے ہینڈل کیا۔ (ن) لیگی قیادت کوانتظامیہ کی اجازت کے بغیر غیر قانونی ریلی نکالنے سے منع کیا گیا مگر انہوں نے اجازت کے بغیر ریلی نکالی بلکہ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے لاہور پولیس کے ایک درجن کے قریب اہلکاروں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا لیکن لاہور پولیس کے افسران و اہلکاروں نے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہونے دیا اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو انتہائی پروفیشنل طریقے سے ہینڈل کیا۔ اگر بات عام انتخابات کی کیجائے تولاہور پولیس نے عام انتخابات سے پہلے انتخابی مہم، امیدواران سے ملاقاتیں اور اپنی سپاہ کی بریفنگ کے تمام مراحل عبور کر لیئے تھے۔ لاہور پولیس سمیت پورے پنجاب میں ایس ایچ او سے لے کر آئی جی رینک تک کے افسران کو تبدیل کیا گیا لیکن لاہور پولیس کی قیادت کی پروفیشنل بصیرت نے 13 جولائی کے کٹھن مرحلے کو آسانی سے طے کر کے عام انتخابات کو پْر امن کروانے کا سہرا بھی اپنے سرکیا۔ عام انتخابات کو پْر امن بنانے کیلئے لاہور پولیس کے 45 ہزار سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں نے فرائض سرانجام دیئے اور دن رات دلی محنت کرنے کے نتیجہ میں عام انتخابات کے موقع پر نہ کوئی گولی چلی اور نہ ہی کسی قسم کا جانی نقصان ہوا۔کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے نہ کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی کوئی امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی۔ حکومتِ پنجاب اور آئی جی پنجاب نے لاہور پولیس کی عام انتخابات پر بہترین کارکردگی پر پولیس افسران و اہلکاروں کی کاوش کو نہ صرف سراہا بلکہ نقد انعام دے کر صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا۔ عام انتخابات کے بعد لاہور پولیس کیلئے عید الاضحی کے موقع پر فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا بھی ایک چیلنج تھا جس کیلئے جامع سکیورٹی پلان ترتیب دیا گیا اور پولیس افسران و اہلکاروں نے اپنے گھروالوں کے ساتھ عید منانے کی بجائے چھٹی کے تینوں دن شہریوں کی حفاظت پر مامور ہوکر خدمت میں گزارے۔ مویشی منڈیوں ، عید الاضحی کے موقع پر مساجد میں ڈیوٹی ، قبرستان اور تفریحی مقامات پر الرٹ ہوکر فرائض سرانجام دیئے۔ لاہور پولیس نے مختلف خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے تھریٹس کے باوجود خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاہور کے باسیوں کی جان و مال کا تحفظ کیا۔ عید الاضحی کا تہوار گزرا تو محرم الحرام آگیا جس کے حوالہ سے خفیہ ایجنسیاں پہلے ہی دہشت گردی ہونے کی نوید سنا چکی تھیں لیکن لاہور پولیس کی پروفیشنل بصیرت کے حامل افسران نے اس چیلنج کو بھی قبول کر کے فول پروف سکیورٹی دینے کا عہد کیا۔ ضلعی امن کمیٹی کے ممبران سے ملاقات کی گئی جس میں ان کو اپنی تقاریر کے ذریعے عوام میں امن، محبت اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کا درس دینے کی اپیل بھی کی گئی۔ سپاہ کی بریفنگ کی گئی جبکہ ہزاروں رضا کاروں کی پولیس لائنز میں فائرنگ پریکٹس کروائی گئی۔ یکم محرم سے 9محرم تک لاہور پولیس کے افسران و اہلکار وں نے چاق و چوبند ہوکر نہ صرف فرائض سرانجام دیئے بلکہ ہزاروں مجالس اورسینکڑوں جلوسوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی۔ لاہور پولیس نے یومِ عاشور کیلئے جامع سکیورٹی پلان ترتیب دیا جس کے مطابق 08ایس پیز، 18 ڈی ایس پیز، 80 ایس ایچ اوزکے علاوہ 15 ہزار سے زائد اہلکاروں نے فرائض سرانجام دیئے۔ مرکزی جلوس کی فضائی نگرانی جبکہ سیف سٹی اتھارٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ کی مانیٹرنگ کی گئی۔ سینئر پولیس افسران نے گاہے بگاہے مرکزی جلوس کے روٹ کا وزٹ کیا جبکہ جلوس میں شرکاء کی چار سطحی جسمانی تلاشی کے بعد داخلے کی اجازت دی۔ مرکزی جلوس کے روٹ پر موبائل فون سروس معطل جبکہ ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی۔ مندرجہ بالا ذکر کئے گئے تمام ایونٹس پر خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گردی بارے اطلاعات اور لاہور پولیس کی جانب سے ثابت قدمی سے ان تمام چیلنجز کو قبول کر کے کامیابی حاصل کرنے پر سیلوٹ کی حقدار ہے۔ اگر لاہور پولیس میں پولیس اصلاحات کی بات کی جائے تو ایس ایچ او کی ٹرانسفر تو دور کی بات ایک کانسٹیبل کی ٹرانسفر بھی پولیس افسران کے 12رکنی بورڈ کی سفارشات پر کی جاتی ہے اور ٹرانسفر کا عمل خفیہ ایجنسیوں سے رپورٹ حاصل کرنے کا بعد مکمل کیا جاتا ہے۔ لاہور پولیس کی موجودہ قیادت سی سی پی او لاہور بی اے ناصر اور ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد اکبر نے سفارت کلچر کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا ہے اور تمام افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کو انصاف دیتے ہوئے کسی قسم کا سیاسی ، ذاتی یا محکمانہ دباؤ لینے کی بالکل ضرورت نہیں بلکہ ٹرانسپیرنسی اور سو فیصد میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک ضلع کی پولیس کی قیادت سے لے کر اہلکاروں تک اپنی جان پر کھیل کر دن رات شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں مصروف ہے تو عوام پر پولیس کے حوالہ سے کیا حقوق فائز ہوتے ہیں؟جیسا کہ ہم نے کالم کے شروع میں ذکر کیا کہ تب تک ایک معاشرہ ترقی نہیں پا سکتا جب تک وہاں قانون کی حکمرانی اور عام آدمی تک انصاف کی فراہمی نہ ہو۔ ایسے ہی ہمیں محکمہ پولیس کو اپنا سمجھنا چاہئے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر سپاہ کے بہادر سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ لاہور پولیس کی قیادت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے جس کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024