وزیراعظم کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ہائیڈل منافع کے فارمولے سمیت اہم فیصلے
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نیٹ ہائیڈل منافع کے سلسلہ میں اے جی این قاضی فارمولے پر من و عن عملدرآمد کیلئے وفاق اور صوبوں میں اتفاق ہوگیا۔ اسلام آباد میں منعقدہ اس اجلاس میں جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ حکام شریک ہوئے‘ نواز دور کے تمام ایل این جی معاہدے بھی منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں ملک کے تعلیمی اداروں کے معیار اور اعلیٰ تعلیم میں یکسانیت کے فروغ کے سلسلہ میں وفاق اور صوبوں کے مابین کوارڈی نیشن کی بہتری کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو صوبوں سے مل کر لائحہ عمل وضع کرنے کی ہدایت کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی معیار کی بہتری پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ صوبائی حکومت سے مل کر اس سلسلہ میں ممکنہ اقدامات کا جائزہ لے۔ اجلاس میں کراچی کیلئے اضافی پانی کی فراہمی سے متعلق صوبہ سندھ کی درخواست کو نیشنل واٹرکونسل کے سپرد کردیا گیا جو ملک میں پانی کی موجودہ فراہمی‘ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کے فارمولے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کو اپنی سفارشات پیش کریگی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کی مانیٹرنگ کا ایک ایسا جامع اور شفاف نظام مرتب کیا جائے جس سے تمام صوبوں کو بروقت اور صحیح معلومات کی فراہمی میسر آسکے کیونکہ صحیح معلومات کی فراہمی کا فقدان غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ اجلاس میں پٹرولیم پالیسی 2012ء میں حکومت سندھ کی تجویز کردہ ترامیم اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ای سی سی کے آئندہ اجلاس میں ان تجاویز و ترامیم کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کی جائینگی۔ اجلاس میں ملک میں قائم ریگولیٹری اتھارٹیز کی مؤثر عملداری اور صوبوں میں حکومتی رٹ کو یکساں طور پر لاگو کرنے کے سلسلہ میں قابل عمل تجاویز مرتب کرنے کیلئے ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ اسی طرح اجلاس میں سات اکتوبر سے ملک بھر میں صفائی مہم شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کا وزیراعظم افتتاح کرینگے۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ صوبوں کو قومی امور میں ساتھ لے کر چلیں گے۔
مشترکہ مفادات کونسل وہ واحد آئینی فورم ہے جس میں پانی اور بجلی کی تقسیم اور وفاقی محاصل کی صوبوں میں تقسیم کے فارمولے سمیت کسی صوبے کے دوسرے صوبے کے ساتھ اور اسی طرح کسی صوبے یا صوبوں کے وفاق کے ساتھ پیدا ہونیوالے تنازعات کا تصفیہ کیا جاتا ہے اور وفاق اور اسکی اکائیوں کے مابین ربط و ضبط کی فضا قائم کرنے اور برقرار رکھنے کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں مشترکہ مفادات کونسل کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے کیونکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور نیشنل فنانس کمیشن کے کسی فیصلہ پر پیدا ہونیوالا تنازعہ بھی مشترکہ مفادات کونسل میں ہی لایا جاتا ہے۔ یہ ادارہ درحقیقت وفاق پاکستان کی بہترین نمائندگی کرتا ہے جس میں وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ ایک گلدستے کی شکل میں وفاق اور اسکی اکائیوں کو باہم مربوط کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک میں انتقال اقتدار کے بعد وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں منعقد ہونیوالا مشترکہ مفادات کونسل کا یہ پہلا اجلاس تھا جس میں بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبے کے وفاق کے ساتھ لاحق ہونیوالے تحفظات کا پلندہ لے کر سی سی آئی کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ یہی وہ نمائندہ فورم ہے جہاں پانی اور بجلی سے متعلق مسائل و تحفظات پیش کرکے انکے ازالہ کی تدبیر کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر وفاق اور اسکی اکائیوں کے مابین یکجہتی اور اچھے تعلقات کار کی فضا استوار ہوتی ہے۔ اس وقت کالاباغ ڈیم سمیت مختلف ڈیمز کی تعمیر اور سی پیک کے منصوبے پر مختلف صوبوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اور انکے وفاق کے ساتھ تحفظات کا اکثر اوقات اظہار ہوتا رہتا ہے جبکہ ملک میں پانی اور بجلی کی قلت سے پیدا ہونیوالے توانائی کے بحران نے زراعت و صنعت کا پہیہ جامد کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی بے پناہ مسائل پیدا کر رکھے ہیں جبکہ ہمارے دیرینہ دشمن بھارت کی ہم پر مسلط کی گئی آبی دہشت گردی توانائی کے بحران کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے اس لئے بھارت کی آبی دہشت گردی کے توڑ اور توانائی کے بحران سے ملک اور قوم کیلئے پیدا ہونیوالے سنگین مسائل کے تدارک کے معاملہ میںمشترکہ مفادات کونسل کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے جس نے بھارتی آبی دہشت گردی کے مؤثر توڑ کیلئے ملک میں زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر کے منصوبوں کی تکمیل کے سلسلہ میں صوبوں میں ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کا فریضہ ادا کرنا ہے۔ اسی طرح سی پیک پر صوبوں کے باہمی اور انکے وفاق کے ساتھ پیدا ہونیوالے تحفظات کے ازالہ کیلئے بھی مشترکہ مفادات کونسل ہی مفاہمانہ کردار ادا کرسکتی ہے۔ چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے مشترکہ مفادات کونسل کے گزشتہ روز کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے پانی کی تقسیم کے فارمولے اور سی پیک کے حوالے سے پیش کئے گئے اپنے اپنے تحفظات پر انہیں مطمئن کرنے کیلئے ان سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ اسی کی بنیاد پر ہائیڈل بجلی کے منافع کی تقسیم کیلئے اے جی این قاضی کے تیار شدہ فارمولے پر عملدرآمد کیلئے وفاق اور صوبوں کے مابین اتفاق رائے کی فضا استوار ہوئی۔
اصولی طور پر تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے شروع کی گئی آبی دہشت گردی کے تناظر میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز کی تعمیر بالخصوص کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے صوبوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے تھی کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے صوبہ سندھ اور سرحد کے وفاق اور پنجاب کیساتھ پیدا ہونیوالے اختلاف رائے کی بنیاد پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرکے اس میں باضابطہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جسکے ذریعے کالاباغ ڈیم کی قومی اہمیت کو فوکس کرکے اسکی تعمیر پر زور دیا گیا اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے اس قرارداد کی بنیاد پر ہی وفاقی حکومت کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دیا تھا تاہم بھارتی ایجنڈا کے تحت اس ڈیم کی مخالفت کرنیوالے عناصر نے آج تک اسکی تعمیر کی نوبت نہیں آنے دی جبکہ ضیاء دور میں اس ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھانے والے میاں نوازشریف کی پارٹی کے سربراہ میاں شہباز شریف بھی اب اسمبلی کے فورم پر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اتفاق رائے کے بغیر کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا۔
اگر آج ہمیں پانی کی شدید قلت اور بجلی کے سنگین بحران کا سامنا ہے جن سے عہدہ برأ ہونے کیلئے کالاباغ ڈیم بہترین معاون بن سکتا ہے اور اسی طرح پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کی بھارتی سازش کے آگے بھی کالاباغ ڈیم کے ذریعے بند باندھا جا سکتا ہے تو اس ڈیم کی مخالفت سے بڑی ملک دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہی وہ موقع ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کو متحرک کرکے کالاباغ ڈیم مخالفین کے منہ بند کئے جائیں اور اس ڈیم کی تعمیر کی منظوری دیکر بھارت کو بھی اسکی آبی دہشت گردی کا مسکت جواب دیا جائے۔ اسی طرح ملک کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کے تناظر میں ہمیں تھرمل کے بجائے ہائیڈل بجلی کی زیادہ ضرورت ہے جس کیلئے کالاباغ اور دوسرے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے تو اس کیلئے قومی آئینی ادارے مشترکہ مفادات کونسل کو مؤثر انداز میں بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ سی سی آئی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں ہائیڈل بجلی کے منافع کی تقسیم کیلئے قاضی فارمولے پر عملدرآمد تو طے ہوگیا مگر ہائیڈل بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیمز کی تعمیر کے ممکنہ اقدامات بھی اس اجلاس کے ایجنڈے کے اولین نکات میں شامل ہونے چاہئیں تھے۔
بے شک وزیراعظم عمران خان نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی شروع کی گئی تحریک میں حکومت کی معاونت شامل کی ہے اور اس سلسلہ میں وزیراعظم فنڈ قائم کرکے اس کو چیف جسٹس کے قائم کردہ فنڈ کے ساتھ منسلک کردیا ہے جس کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں تاہم چیف جسٹس کی اصل دردمندی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے ہے جس کیلئے وہ مستند آبی ماہرین کی رپورٹوں کا بھی جائزہ لے چکے ہیں اس لئے ملکی اور قومی ضروریات کے علاوہ بھارتی سازشوں کو بھی مدنظر رکھ کر وزیراعظم عمران خان خود کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کردیں جس کی روشنی میں پی ٹی آئی کی حکومت اس ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھا لے تو وہ عملاً قوم کے دل جیت لے گی۔ اس سلسلہ میں یقیناً مشترکہ مفادات کونسل ہی نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے جو وفاق اور صوبوں کے مابین اور صوبوں کے صوبوں کے مابین تنازعات کے حل کا مجاز فورم ہے۔ اگر سی سی آئی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں سنجیدگی کے ساتھ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ پیش کیا گیا ہوتا تو اسکی تعمیر کیلئے تمام وزراء اعلیٰ میں اتفاق رائے کرانا وزیراعظم عمران خان کیلئے چنداں مشکل نہیں تھا۔ حکومت کو اگرزیادہ سے زیادہ ہائیڈل بجلی کی پیداوار کا ادراک ہوچکا ہے جس سے مہنگی تھرمل بجلی پیدا کرنیوالی نجی پاور کمپنیوں کی بلیک میلنگ سے بچا جا سکتا ہے تو حکومت کو اب کالاباغ ڈیم کا جھنڈہ بھی اٹھا لینا چاہیے۔ اس کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔