آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ روز پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی عزت اور سلامتی سب سے مقدم ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری نے سینٹ سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس کا رویہ یہی رہا تو ہم جواب دینا جانتے ہیں، کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم ان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ کسی صورت پیچھے نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا ملکی سلامتی پر پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو گی۔ دریں اثناء بھارت کے آرمی چیف بپن راوت نے اپنی ایک گزشتہ ہرزہ سرائی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بقول ان کے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک بہت ضروری ہو چکی ہے اور اس پر جلد عملدرآمد کیا جائے گا۔
پاکستان کا دہشت گردی یا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود بھارت کا جنگجویانہ رویہ اور امریکہ کی طرف سے ڈومور کی رٹ، بلاسبب نہیں، بھارت کو تکلیف یہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کیوں کرتا ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس کا مرض، تیزی سے فروغ پذیر چینی معیشت ہے‘ جس میں سی پیک اہم کردار ادا کرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان نہ تو کشمیریوں کی حمایت ترک کر سکتا ہے اور نہ سی پیک سے دستبردار ہو سکتا ہے اس لئے بھارت اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اسے خوفزدہ کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت جس لہجے میں پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، کوئی امن دوست یا ہوشمند شخص ایسا نہیں کر سکتا۔ بھارت نے چند برس پہلے بھی پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا جسے بھارت کے اپنے باخبر لوگوں نے ہی سفید جھوٹ قرار دے دیا تھا۔ اب پھر بھارتی فوج اور حکمرانوں کے دماغوں میں خونریزی اور خطے کے امن کو تباہ کرنے کا کیڑا کلبلانے لگا ہے تو جیسا کہ پاک آرمی چیف اور وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ اگر بھارتیوں نے کوئی ایسی حماقت کی تو وہ پوری پاکستانی قوم کو سیسہ پلائی دیوار پائیں گے اور انہیں دندان شکن جواب ملے گا۔ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں اور نہ ہم نے ایٹم بم کو شو پیس کے طور پر بنا رکھا ہے، اسے دفاع کے لئے بنایا گیا ہے اور جارحیت کی صورت میں اسے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھی بھارت کو معقولیت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ اگر بھارت کو واقعی کوئی شکایت ہے تو اس کا حل گولی نہیں مذاکرات ہیں۔ مگر اس کی بدنیتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پاکستان کی طرف بات چیت اور وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقات کی پیشکش کو رعونت کے ساتھ ٹھکرا دیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024