آئین کا آرٹیکل نمبر 184 کلاز 3 اور آرٹیکل نمبر 190 عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور دفاع کے سلسلے میں سپریم کورٹ پاکستان کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے۔ سپریم کورٹ آئین اور ریاست کی گارڈین ہے اس کا آئینی فرض ہے کہ وہ حکومت (انتظامیہ) کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے کردار ادا کرے۔ اگر سپریم کورٹ مصلحت سے کام لے اور اپنی آنکھیں بند رکھے تو ریاست مہذب شہریوں کے ملک کے بجائے جانوروں کا جنگل بن کررہ جائے۔ جو لوگ سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات سے آگاہ نہیں ہیں وہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے پرجوش اور پرعزم عدالتی کردار پر بلاجواز تنقید کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے بعد کسی حکمران نے پانی جیسے اہم اور بنیادی مسئلے پر توجہ نہ دی اس مجرمانہ غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان پانی کے سنگین بحران میں مبتلا ہوچکا ہے۔ آبی ماہرین متفق ہیں کہ پانی کے سلسلے میں مزید غفلت آنے والی نسلوں کو پانی اور خوراک کے قحط سے دوچار کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان ہمارے دلی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایمانی جذبے سے کام لیتے ہوئے پانی کی قلت کے سلسلے میں اپنے آئینی اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمشن سندھ تشکیل دیا تاکہ سندھ کے عوام کو ’’ٹینکر مافیا‘‘ سے نجات دلائی جاسکے جو عوام کو دن دیہاڑے لوٹ رہا ہے اور حکومت اس کو قانون کے شکنجے میں لانے کی بجائے اس کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔
سندھ واٹر کمشن کے سربراہ سپریم کورٹ کی سرپرستی میں عوام کو صاف پانی فراہم کرنے اور سیوریج سسٹم کو معیاری بنانے کے لیے قابل ستائش اقدامات اُٹھارہے ہیں۔ انہوں نے ایسی فیکٹریوں پر چھاپے مارے ہیں جو پانی میں کیمیکل زہر ملا رہے ہیں اور ماحول کو آلودہ کررہے ہیں۔ انہوں نے ٹریٹ مینٹ پلانٹس کی ناقص کارکردگی کا جائزہ لیا ہے اور بااثر ٹینکر مافیا پر آہنی ہاتھ ڈالا ہے جو عوام کا پانی چوری کرکے عوام کو فروخت کرتا ہے۔ کوئی باضمیر چیف جسٹس جس کے دل میں خوف خدا اور عوام کی محبت ہو آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ اگر اس کے نوٹس میں آئے کہ پانی کی کمپنیاں ’’منرل واٹر‘‘ کے نام پر عوام کی جیبوں پر کھلے عام ڈاکہ ڈال رہی ہیں اور کوئی ان کو قانون کی گرفت میں لانے پر آمادہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ان کمپنیوں کا نوٹس لیا تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے کہ پانی کی کمپنیاں پانی 25پیسے فی لیٹر میں خرید کر عوام کو 50روپے فی لیٹر فروخت کرتی ہیں۔ یہ دھندا بلکہ ڈاکہ زنی عرصہ دراز سے ہورہی ہے۔ عوام لٹ رہے ہیں اور حکومت کے خزانے میں ٹیکس بھی جمع نہیں ہورہا۔ منتخب حکمران ملی بھگت کی وجہ سے خاموش رہے ۔ پانی کی کمپنیاں دنیا کے مقابلے میں سب سے کم ریٹ پر پانی خرید کر سب سے زیادہ ریٹ پر فروخت کرتی ہیں۔ کئی کمپنیوں نے پانی کے پلانٹ لگانے کے لیے سرکاری زمین بھی مفت حاصل کررکھی ہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے کرپٹ ریاستی نظام کو عوام کے سامنے بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اور یہ حقیقت طشت از بام ہوچکی کہ سیاستدان انتخابات جیتنے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے پانی کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کا حکم دے دیا ہے۔ اُمید ہے کہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرایا جائے گا۔ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں چیف جسٹس پاکستان کے بے مثال جذبے اور عزم کو نسل درنسل یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے دنیا کے سب سے اونچے کنکریٹ بھاشا ڈیم کو قومی منصوبہ بنا دیا ہے۔ عوام اپنی نسلوں کو پانی کی قلت سے بچانے کے لیے سپریم کورٹ ڈیم فنڈ میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ بھاشا ڈیم دنیا اور پاکستان کے بہترین ماہرین کی نگرانی میں تعمیر کرایا جائے گا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی ڈیموں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس چوں کہ انا کے اسیر نہیں ہیں لہذا انہوں نے منتخب وزیراعظم کی خواہش کے مطابق ’’سپریم کورٹ وزیراعظم بھاشا ڈیم فنڈ‘‘ کے نام سے مشترکہ اکائونٹ کھولنے کی منظوری دے دی ہے۔ بھاشا ڈیم تربیلا اور منگلہ کے بعد تیسرا بڑا ڈیم ہوگا جس میں ضائع ہونے والا پانی بھی سٹور کیا جاسکے گا اور عوام کو سستی بجلی بھی فراہم ہوگی۔ چیف جسٹس پاکستان کی دلی آرزو ہے کہ عوام کو سستی معیاری تعلیم اور علاج کی سہولتیں فراہم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے اخراجات کا نوٹس بھی لے رکھا ہے۔ کرپٹ مافیا چیف جسٹس پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گی کیوں کہ چیف جسٹس کا مشن عوامی حقوق کی فراہمی ہے۔ پاکستان کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اللہ کی تائید اور نصرت ان کو حاصل ہے۔ انشاء اللہ وہ تاریخ کی عدالت میں بھی سرخرو ہوں گے اور روز قیامت اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوں گے۔ وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم اگر بروقت عوام کی دادرسی کریں تو چیف جسٹس پاکستان کو ازخود نوٹس نہ لینا پڑیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی ہے کہ پانی کی مناسب قیمت مقرر کی جائے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے۔ آبپاشی کے لیے پانی کے غیر ضروری وافر استعمال اور نہروں کے پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات اُٹھائے جائیں۔ گھریلو پانی کے موزوں استعمال کے سلسلے میں بیداری مہم شروع کی جائے کیونکہ آبی ماہرین کے مطابق پانی کے ضیاع کو روک کر ہر سال ایک بڑے ڈیم جتنا پانی بچایا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس (ر) پاکستان ارشاد حسن خان کے ہمراہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی جو خوشگوار اور یادگار رہی۔ چیف جسٹس پاکستان نے جس شفقت، مروت اور احترام آدمیت کا مظاہرہ کیا اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی ان کے اخلاق نے بہت متاثر کیا۔ ان کی بے ساختہ گفتگو سے میری رائے مستحکم ہوئی کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے مخلوق خدا کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جہاد کررہے ہیں اور اس مقدس مشن کے لیے انہوں نے راتوں کا آرام بھی وقف کررکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی گڈدلدل میں پھنس چکی ہے جسے پوری قوم مل کرہی باہر نکال سکتی ہے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ کوئٹہ میں اگر پانی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو پندرہ سالوں کے بعد کوئٹہ کے عوام ہجرت پر مجبور ہوجائیں گے تو وہ بے چین ہوگئے۔ بقول میر تقی میر:۔
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
ہر اک جا پہ تھی جائے نالہ و فریاد
چیف جسٹس پاکستان کی ڈیمز کے ساتھ کمٹمنٹ کا اندازہ ان کے اس عزم سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ریٹائرمینٹ کے بعد بھی ڈیمز کی ترجیح بنیاد پر تعمیر کے لیے بیداری تحریک کو جاری رکھنا اور اپنے خواب کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انکے بے مثال جذبے سے متاثر ہوکر جناب ارشاد حسن خان اور راقم نے اس قومی تحریک میں کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ملاقات کے دوران چیف جسٹس پاکستان سے گزارش کی کہ وہ عدالتی کام محدود رکھیں تاکہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اسے منطقی انجام تک پہنچا سکیں اور تجویز پیش کی کہ عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے ہر یونین کونسل میں سینئر ایڈووکیٹ کو قاضی نامزد کریں تاکہ عوام کو اپنے معمولی نوعیت کے مقدمات کے لیے سول عدالتوں میں خوار نہ ہونا پڑے۔ جناب ارشاد حسن خان نے چیف جسٹس پاکستان کی خدمت میں چار لاکھ روپے کا چیک اور راقم نے حسب استطاعت چالیس ہزار روپے کا چیک ڈیم فنڈ کے لیے پیش کیا ۔چیف جسٹس پاکستان نے ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کی اسلام ،پاکستان اور جمہوریت کے لیے گراں قدر صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔وہ ہمیں اپنے گھر کے بڑے گیٹ تک رخصت کرنے آئے جو ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ان کے حسن سلوک، جذبے اور عزم و ہمت کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے۔…؎
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024