تاریخی پس منظر کے بعد ایک نظر تازہ ترین بحران پر کچھ یوں ہے کہ سدھو کی آمد عمران خان سے کرکٹ دوستی کی بنا پر تھی لیکن قدرت کا کھیل یہ ہوا کہ نوجوت سنگھ سدھو دراصل سکھ ہے۔ اس کی آمد نے ایک علامت کا کام کیا۔ عمران خان کے ہندو دوست ’’بوجوہ‘‘ تقریب میں نہ آسکے۔ لیکن سدھو ’سیدھا‘ واہگہ سے اپنے لہکتے، چہکتے اور ’کھلے ڈْلّے‘ انداز میں آگیا۔ لیکن یہاں آکر جو ہوا اسے سمجھنے کے لئے گوردوارا دربار صاحب جانا ہوگا۔ ’گوردوارا دربار صاحب کرتار پور‘ لاہور سے 120کلومیٹر دور صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ میں واقع ہے۔ سکھ برادری کے لئے یہ مقدس تاریخی مقام ہے جہاں بابا جی گرونانک دیو مہاراج کی سمادھی اور آخری آرام گاہ مزار موجود ہے۔ دریائے راوی کے ہمسائے میں سکھ برادری کی آنکھ کا تارا اور ’جند جان‘ یہ مقام ڈیرہ بابا نانک صاحب ریلوے سٹیشن سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جو بین الاقوامی سرحد کے اس پار بھارت میں واقع ہے۔ گوردوارا کرتار پور صاحب تحصیل شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے غیر معروف گاوں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے، راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی بھارتی سرحد صاف نظر آتی ہے۔
گوردوارا دربار صاحب کرتار پور اپنی نوعیت کا مقدس ترین منفرد مقام ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور ’جنم استھان‘ ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک دور دراز گاوں میں ہے۔ایک بورڈ سے اشارہ ملتا ہے اور شکر گڑھ روڈ سے پکی سڑک نیچے اترتے ہی دلفریب منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ سرسبز بہار دکھاتے کھیت کھلیان آپ کو ’جی آیانوں‘ اور ’خوش آمدید‘ کہتے ہیں۔ پگڈنڈیوں پر اچھلتے، کودتے بچے نظرآئیں گے۔ بیل گاڑیاں دیکھتے ہی دیکھتے آپ کو ماضی میں بہت دور لے جائیں گی۔ ٹیوب ویلز درختوں کی چھاوں میں آپ کی توجہ چاہتے ہیں لیکن کھیتوں کے بیچوں بیچ دلکش، پروقار سفید دودھیا عمارت آپ کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور آپ کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ دیہات کے پرسکون ماحول دھان کی فصل کے سرسبز نظاروں میں گوردوارہ کرتارپور صاحب کی سنگِ مرمر کی عمارت دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتی ہے۔ گرودوارے کے باہر موجود کنواں ’گرو نانک دیو‘ سے منسوب ہے۔ یہ کنواں ’بابا جی گرو نانک دیو‘کے زیر استعمال رہا۔ اسی مناسبت سے اس کو ’سری کھوہ صاحب‘ کہا جاتا ہے۔ ساتھ ہی بم کا ایک ٹکڑا شیشے کے فریم میں خوبصورتی سے آنے والوں کے ذوق کے لئے موجود ہے۔ جس پر لکھا ہے کہ ’’یہ گولہ بھارتی ایئر فورس نے 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران دربار صاحب کرتارپور صاحب کو تباہ کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے پھینکا تھا جسے کنوئیں نے ’اپنی گود میں لے لیا اور دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔‘‘ گردوارے میں داخل ہونے سے قبل باہر مرکزی دروازے پر ہدایت درج ہے کہ ’سر ڈھانپیں‘۔ داخل ہونے کے لیے آپ کی مذہبی شناخت نہیں پوچھی جاتی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گوردوارے کے خدمت گاروں میں سکھوں کے ساتھ مسلمان بھی شامل ہیں۔ ہر کسی کے لئے لنگر بھی موجود۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ مسلمان باقاعدگی سے یہاں فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔اس پس منظر کی بھی ایک پوری کہانی ہے جس سے یہ ثابت کیاجاتا ہے کہ باباجی دراصل مسلمان تھے۔ اسی لئے اس عقیدے کے پیروکار بابا گرو نانک کو برگزیدہ ہستی مانتے ہیں۔گردوارے کی مرکزی عمارت کے باہر کشادہ صحن میں لنگر خانہ اور یاتریوں کے قیام کے کمرے ہیں۔ مہاراجہ پٹیالہ سردار بھوپندر سنگھ نے 1920ء سے 1929ء کے درمیان دریاء کی تباہ کاریوں سے گوردوارا کو محفوظ رکھنے کے لئے اس زمانے میں ایک لاکھ 35ہزار 600 روپے کی لاگت سے یہ شاندار عمارت تعمیر کرائی تھی جو آج بھی دور سے ہی دیکھنے والے کو سحر زدہ کردیتی ہے۔ حکومت پاکستان نے 1995ء اور 2004ء میں اس کی تزئین ومرمت کرائی۔ دریائے راوی کے کنارے ہونے کی وجہ سے دربارصاحب کی دیکھ بھال آسان کام نہیں اور اس پر مسلسل لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ مقام وہاں تعمیر ہے جہاں باباجی گرو نانک دیو نے وفات پائی۔ پاک بھارت تقسیم کے بعد سرحدی لکیر کھنچ جانے کے بعد بھارتی سکھ برادری بڑی تعداد میں ڈیرہ بابا نانک میں جمع ہوکر ’درشن دیدار‘ کیاکرتی ہے۔ ان کے دل تڑپتے اور تمنا بے چین کرتی کہ وہ بھی ’گرو کے چرنوں‘ میں پہنچ سکیں، اپنے دل کے ارمان پورے کرسکیں۔ یہ مقام بھارتی سرحد سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 2000ء میں پاکستان نے طے کیاتھا کہ ایک پْل تعمیر کرکے یہاں سے سکھ یاتریوں کو سہولت دی جائے تاکہ وہ لمبے سفر کے بجائے باآسانی اپنی مذہبی رسومات ادا کرسکیں۔ مئی 2017ء میں بھارتی لوک سبھا کی پارلیمانی مجلس قائمہ کے ارکان نے اعلان کیا کہ ایسی کوئی راہداری، کوئی راستہ، کوئی پْل نہیں بننے دیا جائے گا۔ اْلٹا بھارتی حکومت نے یہاں نگرانی اور چوکسی کا نیا نظام ’درشن ستھل‘ قائم کردیا تاکہ ’ڈیرہ بابا نانک صاحب‘ کی مسلسل کڑی نگرانی کی جاسکے اور ان کی آنکھوں سے لمحہ بھر کو اوجھل نہ رہے۔
جس کے بعد بھارتی پنجاب کا ضلع گورداسپور ڈیرہ صاحب سے قریب ہوتے ہوئے بھی پھر سے بہت دور ہوگیا اور سکھ برادری کے دل چکنا چْور ہوگئے۔ 22ستمبر کو ’گروجی‘ کی برسی یا عرس منایا جاتا ہے۔ ہر 15اپریل کو ’گرو‘ کا ’جنم دن‘ (1469ئ) دنیا بھر میں منایاجاتا ہے۔ بابا جی گرونانک بہت بڑے توحید پرست تھے انہوں نے ایک خدا کا پرچار کیا۔ ان کی تعلیمات کا نچوڑ ’گروگرنتھ صاحب‘ میں میں درج ہے جس کا بڑا حصہ معروف صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر کی شاعری پر مشتمل ہے جن کا مزار پاکپتن شریف میں مرجع خلائق ہے اور خاتون اوّل بشریٰ بی بی کی وجہ سیاسی اہمیت بھی اختیار کر گیا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ’گروجی بابا نانک مہاراج‘ کی ’جنم بھومی‘ بھی پاکستان میں ہے۔ ’رائے دی تلونڈی‘ آج ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ ’گروجی‘ کے والد کلیان چند داس بیدی جو مہتا کالو کے نام سے معروف ہوئے اور والدہ کا نام ماتا تریپتی تھا۔ ابھی عرس کی تین روزہ تقریبات ختم ہوئی ہیں اور اس میں شرکت کرنے والے یاتریوں کی زبان پر بھارتی رویہ پر شکایت اور افسوس اور پاکستان کی مہمان نوازی اور ان کی جی جان کی قدرافزائی سوز اور دلگدازی صاف سْنی اور محسوس کی جاسکتی تھی۔ صفائی ستھرائی سے لے کر ہر طرح سے یاتریوں کی دیکھ بھال کا اعتراف خود مہمانوں نے کیا۔
کسی میزبان کے لئے اس سے بڑی اور کیا عزت ہوسکتی ہے کہ مہمان راضی ہوکر جائے اور اس کے دل میں محبت اور اپنایت کی وہ جوت جاگ جائے جو پھر محبت کے تناور درخت میں ڈھل جاتی ہے، دوستی کے رشتے پھول بن کر پھوٹتے ہیں اور اعتماد کا سبزہ خوب پھلتا پھولتا اور سایہ دار بن کر برس ہا برس چھتر چھائو ں فراہم کرتا رہتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیرینہ کارکن اور چائے فروشی سے سیاست کے ’سمادھان‘ تک پہنچنے والے نریندر مودی نے 2014 میں بھارت کے وزیراعظم کا حلف اٹھانا تھا، تو دعوت پر وزیراعظم نواز شریف ’سرخ ٹائی‘ زیب تن کئے دہلی پہنچے تھے۔ اس وقت پاکستان کے کئی حلقوں میں شدید اعتراضات ہوئے لیکن اب 2018 میں انڈیا سے کسی سیاسی شخصیت کو مدعو نہیں کیا گیا۔ جن کرکٹرز کو دعوت دی گئی، ان میں سے صرف ’بھاجی سدھو‘ ہی ’وائے گرو‘ کہہ کر ’پدھارے‘، دیگر بھاگ کھڑے ہوئے کہ ’سَت سلام گنگا، اسی نئیں لینڑا اے پنگا‘۔(گنگا کو ہمارا یہیں سے سلام، ہم یہ مصیبت گلے ڈالنے کو تیار نہیں) …
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024