بدھ ‘15؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 26؍ ستمبر 2018ء
حنیف عباسی کی تصویر معاملے میں جیل سپرنٹنڈنٹ بیگناہ ملبہ چھوٹوں پر ڈال دیا گیا
میاں نواز شریف کی رہائی کے وقت جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں لی گئی تصویر میں میز پر مٹھائیوں کے ڈبے بھی تھے اور کافی لوگ وہاں موجود تھے جن میں جیل میں قید حنیف عباسی بھی تھے۔ اب اس تصویر کی اشاعت کے ساتھ ہی شور مچ گیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں قیدی کیسے آ گیا ا ور مٹھائی کے ڈبے کہاں سے پہنچ گئے۔ اس شور غل میں مٹھائی کے ڈبے تو غائب ہوئے شامت آ گئی حنیف عباسی کی کہ وہ وہاں کیا کر رہے تھے انہیں تو اس وقت اپنی بیرک میں بند ہونا چاہئے تھا۔ اس پر سوشل میڈیا ا ور الیکٹرانک میڈیا نے خوب یہ مسئلہ اچھالا تو حکومت پنجاب نے کمیٹی بنائی۔ نتیجہ اب وہی ڈھاک کے تین پات نکلا جو ہمیشہ کمیٹیوں کے نتیجے میں نکلتا ہے۔ جس کا کمرہ تھا جہاں لوگ جمع تھے، جہاں مٹھائی تھی یعنی جیل سپرنٹنڈنٹ ان کو تو مکھن سے بال کی طرح نکال لیا گیا۔ شامت آئی تو 50 عدد چھوٹے اہلکاروںکی۔ کیا یہ بے چارے جلوس کی شکل میں ڈھول تاشے بجا کر مہمانوں کو مٹھائی سمیت سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں بنا پوچھے لائے تھے۔ اتنی جرأت ہے انکی جو وہ ایساکرتے۔ اب موٹی گردن والے کو تو بچایا جا رہا ہے اور پتلی گردن والے ذبح ہو رہے ہیں۔ کمیٹی کی رپورٹ میں تو یہی سچ لکھا ہے جو خدا جانے ادھورا ہے یا پورا سچ ہے۔ یہاں تو عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے اس کمال کی عیاری پر کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔ اسے طوطے کی بلابندر کے سر بھی کہہ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
عمران خان ٹیکس لگانے آئے ہیں عوام کو پی پی کا دور یاد آئے گا: خورشید شاہ
بات تو سچ کی ہے خورشید شاہ نے۔ اگر مہنگائی ا ور یوٹیلٹی بلز یونہی بڑھتے رہے تو واقعی لوگوں کو پیپلز پارٹی کا دور حکومت یاد آئے گا جب نہ گیس ملتی تھی نہ بجلی اور بل پورے آتے تھے۔ مہنگائی نے عوام کا لہو تک نچوڑ لیا تھا۔ ہر چیز پر مسٹر ففٹی پرسنٹ کمیشن کہہ لیں یا بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔ اب گرچہ وہ صورتحال تو نہیں مگر پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا سن سن کر عوام کے لبوں پر خودبخود ’’جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘‘ جاری ہو جاتا ہے۔ ٹیکس چوری ہمارے ہاں باعث نفرت نہیں رہا۔ اب تو یہ باقاعدہ ایک آرٹ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ایسے ایسے عجوبہ روزگار لوگ اس کام میں طاق ملیں گے کہ بڑے سے بڑا قانون دان بھی ان کے آگے جبین نیاز جھکاتا نظر آئے گا۔ عام میٹر ریڈر سے لے کر اعلیٰ سطح کے ٹیکسیشن افسر تک لوگوں کو ٹیکس چوری کے بل چوری کے ایسے ایسے نادر نسخہ جات عنایت ہوتے ہیں کہ ٹیکس چور اس کام کو عین عبادت سمجھ کر کرنے لگتے ہیں۔ اب اگر موجودہ حکومت ایسے ٹیکس چوروں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو وہ اس میں حق بجانب ہے۔ اختلاف یہ ہو سکتا ہے کہ حکمران صرف غریبوں کو ہی ٹیکس سے مستفید نہ کریں۔ اشرافیہ کو بھی اس سے فیض یاب کریں تاکہ کچھ رقم تو خزانے میں آئے۔
٭٭٭٭٭٭
بھارت اور افغانستان میں دریائے کابل پر ڈیم تعمیر کرنے کا معاہدہ
افغان صدر نے ہمارے وزیر خارجہ کی کابل یاترا کے فوراً بعد دہلی سرکار کی خدمت میں حاضری دینی ضروری سمجھی۔ اس حاضری کے دوران کیا راز و نیاز ہوئے یہ نریندرمودی جانے یا اشرف غنی ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے لئے اہم خبر یہ ہے کہ اب بھارت نے افغانستان کو ساتھ ملا کر پاکستان کو مزید بنجر بنانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ اب بھارت نے نہایت عیاری کے ساتھ افغانستان میں بہنے والے دریائے کابل پرڈیم بنانے کا کام اپنے ذمے لیا ہے۔اس میں افغانستان کی محبت سے زیادہ پاکستان سے عداوت کا عمل دخل ہے۔ اس طرح پاکستان دریائے کابل کے وافر پانی سے محروم ہو جائے گا۔ یہ خبر سن کر تو کالا باغ ڈیم کے مخالفین جھوم اٹھے ہوں گے۔ بے شک افغانستان کو پورا حق ہے دریائے کابل پر ڈیم بنائے۔ مگر بھارت کی پوری کوشش ہو گی کہ ایسا نقشہ بنے کہ جس سے پاکستان کو کم از کم پانی ملے۔ ایک طرف ہمارے حکمران ہیں جو افغانیوں پر ہمیشہ مہربان رہے ہیں۔ ضیا سے لے کر عمران خان تک تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں دوسری طرف افغان ہمیشہ ہمارے خلاف ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب حکومت افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے سے پہلے ذرا افغانستان اور بنگلہ دیش کی ’’پاکستان دوست‘‘ پالیسیوں کو بھی مدنظر رکھے پھر کوئی فیصلہ کرے۔ ورنہ وہی حال ہو گا جو اس کسان کا ہوا تھا جس نے سانپ کو سردی سے اکڑتا دیکھ کر بغل میںلے لیا تھا کہ اسے گرمی ملے اور وہ بچ جائے مگر انجام کار سانپ نے اسے ہی ڈس لیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
شعیب اختر نے بھارتی اینکر کوجھاڑ پلادی
بھارتی میڈیاکے اینکر خواہ مرد ہوںیا خواتین پاکستان کے حوالے سے جب بھی بات کرتے ہیں ان کے تیور بدل جاتے ہیں۔ یعنی ’’آئینہ وہی رہتا ہے، صورت بدل جاتی ہے‘‘ ان کے اندر کی خباثت ان کے چہرے سے عیاں ہونے لگتی ہے۔ایسے اینکرز کو کئی پاکستانیوں کی طرف سے اکثر سخت سست سننے کو بھی ملا مگر وہ باز نہیں آتے۔ ایک بار تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ سابق صدر مشرف نے تو کچھ اس طرح بات کرنے والے اینکر کی خبر لی کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ اب ایک بار پھر ایشیا کپ میں بھارت کے ہاتھوں شکست پر بات کرتے ہوئے بھارتی ٹی وی اینکرنے جب راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کے سامنے بار بارشکست کے لئے کا لفظ استعمال کیا تو پھر شعیب اختر بھی تائو میں آ گئے ا ور انہوں نے خاتون اینکر کلاس لیتے ہوئے ہوئے کہا کہ پہلے یہ دیکھ لیا کریں آپ کس سے مخاطب ہیں۔ میں ہریانہ کرکٹ ٹیم کاکھلاڑی نہیں۔ اس لئے ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔ شعیب اختر کی حب الوطنی سے بھرپور جھاڑ سُن کر خاتون اینکر ساری اینکری بھول کر شرمندہ ہو گئیں۔ بھارتی میڈیا پر بات کرنے کے شوقین حضرات کے لئے مشرف اور شعیب اختر کا کرارا جواب ایک مثال ہے جہاں ملک و قوم پر کوئی بتیسی نکالے اسے فوراً لیاقت علی خان والا مکا دکھایا جائے تو اچھا ہوتا تب ہی کام بنتا ہے۔ کسی کو ا پنا مذاق اڑانے کی اجازت دینا حماقت ہے غیرت قومی کا اظہار برملا اور بروقت ہوتا نظر آنا ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭