افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ وطن عزیز میں اگر نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کی بات کی جائے تو ہمیں جمہوریت کی روح کہیں بھی کارفرما نظر نہیں آتی۔ ہمارے سابقہ لیڈرز سارے کی ساری پاور اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنے کی تگ و دور میں لگے رہے۔ہم بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تاریخ پر اگر سرسری نظر دوڑائیں تو قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے 10 برس تک جمہوری حکومتیں اس درجہ کمزور رہیں کہ ان کی ساری تگ و دو اپنے وجود کو معدوم ہونے سے بچانے میں لگی رہیں۔ ایوب خان کے 10 سالوں میں ’’بی ڈی‘‘ ممبرز کا نظام وضع کیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبرز چنے گئے۔ یہی ممبرز صوبائی اور قومی اسمبلیوں کا انتخابی ادارہ (الیکٹرول کالج) بن گئے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایوب خان کے دور میں اس سسٹم نے کئی اچھے کام کیے۔ گائوں، دیہات، قصبوں، تحصیلوں اور ضلعوں میں عوامی بہبود کے ان گنت منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ ایوب خان کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ سسٹم بھی دھڑام سے نیچے آگرا۔ ملک کے دوسرے فوجی حکمران یحییٰ خان دوبارہ بلدیاتی اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کرسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلدیاتی اداوں کے استحکام کے لیے مثبت کوششوں سے اجتناب کیا۔ صدر ضیاء الحق نے 3 بار بلدیاتی انتخابات کروائے اور 11 سالوں میں ملک میں ترقیاتی کاموں کی نئے سرے سے داغ بیل ڈالی۔ بے نظیر نے اپنے والد کی طرح کا طرزِ عمل اپنایا اور اس باب میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ نوازشریف کے پہلے دورِ حکومت میں 1991ء میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ دوسرے صوبے اس نوازش سے محروم رہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں 1997ء کے ایک کابینہ اجلاس میں اعلان ہوا کہ 1998ء میں بلدیاتی انتخابات ملک بھر میں ہوں گے۔ 1999ء ختم ہونے پر آگیا، لیکن اس جانب حکومت نے کوئی قدم نہ اُٹھایا۔ 12 اکتوبر کے انقلاب کے بعد جنرل مشرف نے 2001ء میں مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا۔ ناظم اور نائب ناظم چنے گئے۔ انہوں نے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی جگہ لے لی۔ کئی بڑے شہروں میں ان ناظمین نے آبادیوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ عوامی فلاح و بہبود کو چار چاند لگادیے گئے۔ 2008ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ناظمین کو عضو معطل بنادیا گیا۔ فنڈز روک لیے گئے۔ ترقیاتی منصوبے ادھوے چھوڑ دیے گئے۔ سڑکیں اور پل مکمل نہ ہوپائے۔ یہ سارے فنڈز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے من پسند اراکین میں بانٹ دیے گئے۔ یوں 2009ء میں بلدیاتی ادارے توڑکر اُن کی جگہ ایڈمنسٹریٹرز مقرر کردیے گئے۔
2013ء میں اس حکومت نے اقتدار میں آکر بلدیاتی انتخابات کو سردخانے میں ڈال دیا۔ 8 نومبر 2013ء کو قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں ان انتخابات کو ملتوی کردیا گیا۔ عذر یہ تراشا گیا کہ 20 دنوں میں 5 کروڑ بیلٹ پیپرز چھپوانا ناممکن ہے۔ الیکشن کمیشن اور شدید عدالتی دبائو کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کروانا پڑے ۔ لیکن نواز حکومت نے اختیارات دیے نہ فنڈز جاری ہونے دیے۔ یعنی ن لیگ کی سیاسی قیادت نے اس بھاری پتھر کو بڑی بے دلی سے اُٹھانے کا مظاہرہ کیا ۔ ہمارے صوبائی اور مرکزی لیڈر اپنے اختیارات نچلی سطح پر عوامی نمائندوں کو سوپنا نہیں چاہتے تھے۔ ہماری سابق بڑی سیاسی پارٹیاں شخصی اقتدار کی حامل نہیںتھیں۔ یہ مخصوص خاندانوں کی جاگیریں ہیں۔ ان پارٹیوں میں قیادت کے انتخاب کے لیے کبھی الیکشن نہیں ہوتے، اگر ہوتے بھی ہیں تو برائے نام۔ یہ لیڈر ہر شے کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔
مگر آج نئی حکومت نے عمران خان کی قیادت میں بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کا ایک مثبت فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کیلئے بلدیاتی نظام کی منظوری دی اوراسے48گھنٹے میں حتمی شکل دینے کاحکم جاری کیا۔اگر اس پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کیا گیا تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ یہ نچلی سطح پر عوام کوبااختیار بنانے کاموثرذریعہ ثابت ہوگا۔لاہور میں صوبائی وزیربلدیات کی جانب سے نئے بلدیاتی نظام پربریفنگ کے دوران پرانے نظام کی خامیاں دورکرنے کے لئے وزیراعظم نے نئے نظام کے ضمن میں تین بنیادی اصول متعین کئے ہیں،پہلا یہ کہ یہ نظام پیچیدہ نہیں بلکہ سادہ ہو۔دوسرا یہ کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات براہ راست ہوں۔اورآخری یہ کہ منتخب نمائندوں کو پوری طرح بااختیار بنایاجائے تاکہ وہ نچلی سطح پرعوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کرسکیں،وزیراعظم نے پنجاب کیلئے جس نظام کی منظوری دی ہے اس کے تحت ضلع اورتحصیل کی سطح پر میئر کاالیکشن براہ راست ہوگا اورمنتخب نمائندوں کی صوابدید پر60سے75ارب روپے تک کے فنڈز مختص کئے جائیں گے۔ ماضی میں بلدیاتی نمائندوں کی بجائے فنڈز اسمبلیوں کے ارکان میں بانٹے جاتے تھے جس سے ان ارکان کی توجہ قانون سازی کی بجائے فنڈز کے حصول پرمرکوز رہتی تھی۔نئے نظام کا مقصد سٹیٹس کو ختم کرکے ایسا طریق کار رائج کرنا ہے جس کے تحت منتخب نمائندوں کو کسی بھی سطح پر بلیک میل نہیں کیاجاسکے گا۔اوروہ اپنی تمام ترتوجہ عوام کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرسکیں گے۔ایک اوراہم بات یہ ہے کہ نئے نظام کی بنیاد جمہوری اقدار پرمبنی ہوگی جس کی رو سے گڈگورننس اورشفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اس سے نئی لیڈر شپ کو اوپرآنے میں مدد ملے گی۔تحریک انصاف کی حکومت نے خیبرپختونخوامیں ویلج کونسل کے نظام کا تجربہ کیاتھا جس کے بارے میں دعویٰ کیاجاتا ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ نکلا۔اسی پس منظر کوذہن میں رکھتے ہوئے وزیراعظم چاہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے تجربے سے فائدہ اٹھایاجائے اور پنجاب، سندھ اوربلوچستان میں یونین کونسلوں کے سائزکادوبارہ تعین کیاجائے۔اس سلسلے میں اس بات پر غور کیاجارہاہے کہ ان تینوں صوبوں میں ویلج کونسلیں قائم کی جائیں یاموجودہ یونین کونسلوں کے سائز پرنظر ثانی کی جائے کیونکہ خاص طورپر پنجاب میں آبادی کے لحاظ سے ان کا حجم بہت بڑا ہے۔
حکومت کی ذمے داری ہے کہ سب فریقین اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نظام کو حتمی شکل دے۔ صوبائی اسمبلیوں میں اس پر بحث کی جائے اور اس پر پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔نظام کو حتمی شکل دینے سے قبل اسے عوامی مباحث کے لیے پیش کیا جائے۔ اگرچہ مقامی نظام ایک صوبائی موضوع ہے،لیکن اس میں وفاق کا کردار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی صوبہ مقامی نظام، انتخابات اور اس کے بنیادی فرئم ورک سے انحراف کرے تو وفاق اس کو جوابدہ بناسکے۔کیونکہ ہمیں دنیا سے سبق سیکھنا چاہیے کہ حکمرانی کے بحران کا حل مضبوط، مربوط مقامی حکومتوںکا نظام ہے اور یہ ہی ہماری بنیادی ترجیح بھی ہونا چاہیے۔تاہم فیصلہ جوبھی کیاجائے اس میں آمرانہ ادوار کے بلدیاتی اداروں کی خامیوں پربنظر غائرغور کرکے ان سے چھٹکاراحاصل کرنے کی راہ نکالنا ضروری ہے نئے نظام میں محاسبے پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہئے جس کامطلب سخت گیر آڈٹ اورجواب دہی ہے۔تحصیل اورضلع کی سطح پر منصوبہ بندی کے نقائص بھی دور ہونے چاہئیں اورغیر ضروری سیاسی مداخلت کاراستہ بند ہونا چاہئے۔صوبائی حکومتیں اگر نچلی سطح کی مقامی حکومتوں کے کام میں مداخلت نہیں کریں گی اورانہیں عوام کی بہتری کے لئے آزادانہ کام کرنے دیں گی تو یہ عمران خان کے وژن کے عین مطابق ہوگا۔اور یقینا عمران خان اپنی سیاست میں جس سیاسی نظام کو کامیابی کی بنیادی کنجی قرار دیتے ہیں اس میں مقامی نظام حکومت کو فوقیت حاصل ہے۔اُمید ہے وہ پنجاب کے بعد باقی صوبوں میں بھی اسی ماڈل کو پیش کریں گے اور اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی سے عوام کے مسائل کم ہوں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024