بدھ ‘ 8 ذیقعد 1433ھ26 ستمبر2012 ئ
سکھر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیخلاف شہریوں کا گدھا گاڑیوں پر بیٹھ کر احتجاج۔
شہری چاہے گدھوں پر حکمرا وں کو بٹھا دیں‘ تب بھی وہ ا کی آواز فریاد ہیں س یں گے اس لئے کہ وہ جس چیز پر بیٹھے ہوئے ہیں‘ وہاں اس طرح کی عوامی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں۔ گدھا گاڑیوں پر احتجاج تو یہ تجویز دی ے کے مترادف ہے کہ گاڑی کو پٹرول سے ہیں گدھے سے چلاﺅ۔ اور پھر وہ ایک دم گدھے مہ گے کر دی گے۔ یع ی اپ ی قیمتیں بھی بڑھا دی گے۔
یہ مہ گائی ایک چڑیل ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرکے اپ ے عاملوں کے اشاروں پر اچتی اور عوام کو تگ ی کا اچ چاتی ہے۔ پٹرول عالمی م ڈی میں اسی لئے سستا ہوا ہے کہ ہمارے حکمرا اسے مہ گا کرکے ایذا رسا ی کا پورا پورا لطف اٹھا سکیں۔
اب تو ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ عوام اپ ے اپوزیش لیڈروں سے کہیں کہ وہ بھی ا کے ساتھ شاہی سواری پر بیٹھ کر احتجاج کریں‘ شاید کہیں کسی کو ے سے شرمساری یا بہادری کی کوئی لہر جاگ اٹھے۔
٭....٭....٭....٭
امریکی جوڑے ے ا کشاف کیا ہے‘ بھیڑیا خطر اک ہیں‘ محبت کر ےوالا جا ور ہے۔
ظاہر ہے بھیڑیا کب خود کو خطر اک کہے گا‘ البتہ بھیڑوں کو محتاط رہ ا چاہیے اگر وہ واقعی شیر سے بھیڑ ب چکی ہیں اور جو بھیڑ کے بچے ہیں‘ وہ تو اس دیا کے ک ارے کھڑے ہوں جو الٹی بہہ رہی ہو‘ اسی میں بچت ہے۔
زما ے ے کس جا ب کروٹ بدلی ہے کہ جس طرف بھی لی ہے‘ دل اس جا ب ہوتا ہی ہیں۔ یہی لاالٰہ پڑھ ے والے تھے کہ جب ٹوٹی ہوئی ک د تلواریں لے کر بھی عرہ¿ حق بل د کرتے تھے تو یہ محبت کر یوالے بھیڑیے چوہے ب کر بلی کو وچتے تھے۔ وہ شاید بدحواسی میں بلی کو کھمبا سمجھتے تھے۔
ہر طرح کی بد ظمی اور کرپش کا ایسا سیلاب آیا ہے کہ ایک روز کھمبوں پر جگہ ہیں ملے گی۔ امریکی جوڑے ے خوب بات کی لیک یہ ا وکھی بات ہے کہ کیا امریکہ میں ہ وز جوڑے ہوا کرتے ہیں۔ اقبال ے فرمایا تھا....
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار ع اصر ہوں تو ب تا ہے مسلما
عرصہ ہوا ہے یہ چار ع اصر بھی کہیں ایسے کھوئے گئے ہیں کہ مسلما ب ا ے کے کارخا ے بھی فیصل آباد کی کھڈیوں کی طرح ب د پڑے ہیں۔ ویسے اس امریکی جوڑے کو مسلما ہو جا ا چاہیے کیو کہ اسکے قول میں قرآ کے اس فکر کی جھلک ملتی ہے کہ عوام ال اس میں سے اکثر مال مویشی ہوتے ہیں بلکہ کچھ تو اس سے بھی بڑھ کر گمراہ تری ہوتے ہیں اس لئے عی امکا ہے کہ امریکہ کے علاوہ کوئی بھیڑیا محبت کر یوالا ہو اور جوڑے کی اس سے ہ ی مو کے دورا ملاقات ہوئی ہو۔ محبت کر یوالے بھیڑیے ہمارے ہاں بھی ہیں ج کی محبت کو ایک شخص ملتا میں بیٹھا رو رہا ہے۔
٭....٭....٭....٭
برل میں باربی گڑیاﺅں کی دیوا ی خاتو ے 15 ہزار سے زائد گڑیائیں جمع کرلی ہیں۔
گڑیا کا تصور اگرچہ بہت پرا ا ہے‘ اسکی زبا یں بدل سکتی ہیں مگر گڑیا تو پھر بھی گڑیا ہے۔ مغرب میں گڑیا‘ گڑیا ہی ہوتی ہے مگر مشرق میں گڑیا میں شاعروں ے روح بھی پھو ک دی ہے۔ گڑیائیں چھوٹی بڑی ہوتی ہیں‘ بڑی گڑیائیں چھوٹے گڈوں اور چھوٹی گڑیاں بڑے گڈوں سے خاصی رغبت رکھتی ہیں۔ یہ ایک مشرقی مائیتھالوجی ہے‘ جیسے کسی ے کہا ہے:
بول میری گڈی تجھے گڈا قبول!
اور بعض اوقات تو گرم و سرد چشیدہ گڑیائیں ازخود ہی بول اٹھتی ہیں‘ بول میرے گڈے تجھے گڈی قبول!
یہ قصہ ہے دریائے یابیلو کے ک ارے آباد بخت صری تہذیب کا کہ ایک گڑیا اچا ک حرکت میں آگئی اور اس ے ایک گڈے کو جو شکل سے کسی گمشدہ سلط ت کا کراﺅ پر س لگتا تھا‘ ایسا جپھا مارا کہ چھوڑا ہی ہیں۔ لوگ اکٹھے ہو گئے‘ ایک جادوگر ے اپ ے علم سے معلوم کیا کہ یہ گڑیا صدیوں پرا ی ہے‘ کبھی کبھی یہ ز دہ ہو کر کسی گڈے کو اپ ے طلسمی عمل سے ز دہ کرکے دبوچ لیتی ہے۔
جس جرم عورت کو گڑیاﺅں کا شوق ہے‘ اسکے ہاں گڈے کا تصور ہیں۔ گڑیا سے کسی کو مثال تو دی جا سکتی ہے مگر گڑیا ب ا ا‘ درست ہیں۔ اگر گڑیا یا تصویر ب ا ی ہے تو پھر اسے مکمل بھی کیجئے۔ یوں بے جا گڑیائیں اور تصویریں تو جا ما گتی ہیں جو ہم ا کو ہیں دے سکتے۔ بہرحال بات چل رہی تھی گڈی گڈے کی‘ وہ جو گڑیا تھی اس کا پہلے بھی ایک گڈا تھا مگر وہ گڑیاﺅں کی آڑ میں ت ئے گڈے بھی جمع کرتی تھی۔
آخر ایک ایسا جادوگر آیا کہ اس ے اس کا قصہ تمام کر دیا۔ کیو کہ بعض اوقات سابقہ گڈے بھی غیرت میں آجاتے ہیں۔ ا سا چاہے تو اپ ی آ کھوں کے دریچوں میں کت ے ہی ظارے سمو سکتا ہے۔ یہ دور اپ ے براہیم کی تلاش میں ہے‘ ص م کدہ ہے جہاں لاالٰہ الااللہ۔ اور بعض دولہے تو ایک دلہ کو گڑیا کہتے ہیں‘ پھر وہ اسے گڑ کہ ا شروع کر دیتے ہیں‘ خیال اپ ا اپ ا صیب اپ ا اپ ا۔
٭....٭....٭....٭