امریکی ڈرون حملوں کیخلاف تین امریکی اداروں کی چشم کشا تحقیقاتی رپورٹ
یہ حملے روکنے کیلئے ہمارے حکمران بے بس کیوں ہیں؟
امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی‘ سکول فار لاءاور اسٹیفن فورڈ لاءسکول کی جانب سے مرتب کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونیوالے امریکی ڈرون حملوں کو امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور ان حملوں کیلئے امریکی مو¿قف کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا گیا ہے کہ ان حملوں کے باعث 74 فیصد پاکستانی امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ یہ حملے نتیجہ خیر بھی ثابت نہیں ہو رہے اور ان میں ہائی لیول ٹارگٹ کے مرنے کا تناسب صرف دو فیصد ہے اور باقی سارے معصوم افراد ان حملوں میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ڈرون حملوں کے بارے میں 9 ماہ کی تحقیقات کے بعد مرتب کی گئی ہے جو منگل کے روز جاری کی گئی۔ رپورٹ میں ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظرثانی کا تقاضا کرتے ہوئے یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجہ میں غیرریاستی مسلح گروپس کو منظم ہونے کا موقع ملا ہے جو مزید پرتشدد حملوں کےلئے آمادہ رہتے ہیں۔ رپورٹ میں امریکی حکومت سے یہ استفسار کیا گیا ہے کہ وہ کس قانون کے تحت یہ حملے کرتی ہے۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ڈرون حملوں سے شمال مغربی پاکستان میں لوگ 24 گھنٹے خوفزدہ رہتے ہیں جو انتہائی نقصان دہ اور غیرنتیجہ خیز صورتحال ہے جس سے امریکی پالیسی ساز اور امریکی عوام مسلسل لاتعلقی اختیار نہیں کر سکتے۔ متذکرہ اداروں کی جانب سے یہ رپورٹ مرتب کرنے کیلئے پاکستان کے متاثرہ علاقوں میں 130 گواہوں اور ماہرین سے رابطے کرکے ان سے معلومات حاصل کی گئی ہیں۔
یہ حقیقت ہے جس کی امریکی اداروں کی مرتب کردہ رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈرون حملوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے مقاصد تو حاصل نہیں ہوئے البتہ یہ حملے پاکستان کے عوام میں امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دینے کا ضرور باعث بنے ہیں مگر واشنگٹن انتظامیہ ان حقائق کا ادراک ہونے کے باوجود ڈرون حملے جاری رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہے جن کی کوئی عالمی یا ملکی قانون تو امریکہ کو اجازت نہیں دیتا البتہ امریکہ کی سلامتی کو محفوظ کرنا ان حملوں کا جواز بنایا گیا ہے جس سے زیادہ غیرمنطقی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ ان حملوں کے ردعمل میں امریکہ مخالف جذبات ابھریں گے تو اسکے نتیجہ میں ضرور امریکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں ڈرون حملے جاری رکھنا ویسے ہی دانشمندانہ اقدام نہیں جبکہ ان حملوں کی وجہ سے ہی پاکستان کے حکمران بھی اپنے عوام کے دباﺅ میں آتے ہیں‘ نتیجتاً واشنگٹن‘ پینٹاگون اور اسلام آباد کی سطح پر بھی کشیدگی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے پاکستان امریکہ تعلقات سردمہری کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح قومی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ڈرون حملے خود امریکہ کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں جسے ان حملوں کی وجہ سے عالمی برادری کے دباﺅ کا بھی سامنا ہے‘ اقوام متحدہ میں بھی ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی پالیسی موضوعِ بحث ہے اور اسے انسانی حقوق سے متعلق یو این چارٹر کے منافی قرار دیتے ہوئے امریکہ سے وضاحت طلب کی گئی ہے کہ ان حملوں میں فی الواقع ہائی ویلیو ٹارگٹس ہدف بنے ہیں یا عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں؟ اسی طرح برطانیہ کی ایک تنظیم کی جانب سے بھی برطانوی عدالت میں امریکی ڈرون حملوں کیخلاف کیس دائر کیا گیا ہے جبکہ ڈرون حملوں کے متاثرین کی تنظیم نے پشاور ہائیکورٹ میں بھی ڈرون حملوں سے متعلق امریکی پالیسی کو چیلنج کر رکھا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ پاکستان کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں بھی یکسو ہو کر ڈرون حملوں کیخلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں دو بار متفقہ قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں جن میں ڈرون حملے فی الفور بند کرنے کا تقاضا کیا گیا ہے جبکہ صوبہ خیبر پی کے کی اسمبلی بھی دو ماہ قبل ڈرون حملوں کیخلاف متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے اور پاکستانی قوم کا تو بنیادی تقاضا ہی اپنے حکمرانوں سے ڈرون حملے بند کرانے کا ہے مگر امریکہ ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کا دباﺅ قبول کرتا ہے‘ نہ پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کو خاطر میں لاتا ہے اور جون 2004ءسے اب تک اس نے ڈرون حملوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اب ان حملوں میں شدت بھی پیدا کر دی گئی ہے۔ گزشتہ روز بھی میرانشاہ کے علاقے میرعلی میں ہونیوالے امریکی ڈرون حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس حملے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا‘ اس سے پہلے ہونیوالے ڈرون حملوں میں بھی مقامی آبادیوں کے گھروںسمیت سکولوں‘ جرگوں اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا جبکہ جون 2011ءمیں قبائلی عمائدین کے ایک جرگے پر ڈرون حملہ کرکے چالیس بے گناہ افراد کی جانیں لی گئیں۔
امریکی اداروں کی رپورٹ میں بھی ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونیوالوں کے اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں جس کے مطابق جون 2004ءسے ستمبر 2012ءکے وسط تک ہونیوالے 330 ڈرون حملوں میں مجموعی تین ہزار 325 افراد جاں بحق اور ایک ہزار 362 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جاں بحق ہونیوالوں میں 881 عام سویلین شہری اور 76 1بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں میں زیادہ تر وہ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں جن کا دہشت گردی یا دہشت گردوں سے سرے سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں۔ چنانچہ ان حملوں کا نشانہ بننے والے بے گناہ خاندانوں کے افراد بالخصوص نوعمر افراد کے ذہنوں میں کیا سوچ پیدا ہوتی ہے‘ اس کا نتیجہ ہی ہم خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ یہ حملے جہاں عوام میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ کرکے پاکستان کے حکمرانوں کیلئے پریشانیاں پیدا کرتے ہیں‘ وہیں انسانی دکھوں اور بے بسی کی داستانوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ ان حملوں میں جاں بحق اور زخمی ہونےوالے افراد کے لواحقین بھی عمر بھر کے صدمات اور روٹی روزگار کے سنگین مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسکے ردعمل میں جہاں متاثرہ خاندانوں کے نوجوان خودکش حملہ آور بنتے ہیں‘ وہیں وہ لوگوں کا امن و سکون برباد کرنیوالے سنگین جرائم کی راہ پر بھی چل نکلتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث ہی عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں سے نالاں رہتی ہے۔ جہاں مشرف کی جرنیلی آمریت میں ڈرون حملوں کی ابتداءہوئی تو موجودہ منتخب حکمرانوں کے دور میں یہ حملے انتہاءتک جا پہنچے ہیں جبکہ ان حملوں کو روکنے یا ان کا توڑ کرنے میں حکمران بے بسی کا اظہار کرتے ہیں تو اس سے بھی عوام کے دلوں میں امریکہ کے ساتھ ساتھ اپنے حکمرانوں کیلئے بھی منافرت کے جذبات ابھرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو اب تک جتنا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے‘ اس میں بڑا کردار ڈرون حملوں کا ہی ہے کیونکہ خودکش حملے اور دہشتگردی کی دیگر وارداتیں زیادہ تر ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہی ہوئی ہیں۔ اگر ہمارے ان بھاری نقصانات کے باوجود امریکہ ڈرون حملے برقرار رکھنے پر مصر ہے تو درحقیقت وہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے‘ کیا اسے اپنی سلامتی کے نام پر کسی دوسرے ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اس تناظر میں امریکی اداروں کی چشم کشا رپورٹ ہمارے حکمرانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں اب اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی امریکہ سے ڈرون حملے فی الفور بند کرنے کا دوٹوک تقاضا کرنا چاہیے۔ امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے معنی ملک کو کرائے پر دینا نہیں۔ یہاں اب بھی پاکستان کا قانون چلنا چاہیے اور اگر پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے کہ پاکستان میں ڈرون اڑنے کی اجازت نہیں دی جائیگی تو اپنے فیصلے کی پیروی بھی کرکے دکھائے۔ یہی عوام کا اپنے نمائندگان سے تقاضا ہے۔