(کالم نگار کی کتاب ”پہنچے تیرے حضور“ سے چند اقتباسات)
ہر دعوت میں، ہر ملاقات پر احباب، عزیز رشتہ داروں کا صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ روضہ رسول پر ان کے لیے دعا کی جائے.... گڑ گڑا کر، عجز و انکسار کے ساتھ، دست بستہ! یا مظہر العجائب! میں نے سوچا.... تو نے یہ کیسا انسان کامل بنایا جس نے بتان زنگ و خوں کو پاش پاش کیا۔ زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا، مرنے کے آداب بتائے۔ آدمیت کو معراج بخشی، ثبوت حق بھی پیش کیا اور پیغام حق بھی ذہن نشیں کرایا۔ وہ جو کاروان انبیاءکا قافلہ سالار تھا، وہ جو افواج دیں کا شہسوار تھا، وہ جو علم و حکمت کا خزانہ تھا، وہ جو جرا¿ت و شجاعت کا سکندر تھا۔ پیکر جود و سخا، مرکز صدق و صفا، کتاب اللہ کی زندہ تفسیر، آسمان رسالت کے بدر منیر، چودہ سو برس بیت گئے، چودہ ہزار برس بیت جائیں گے، چودہ لاکھ صدیاں گزر جائیں گی۔ اتباع رسول میں کمی نہیں آئے گی۔ عجز و عقیدت کے چشمے کبھی خشک نہیں ہوںگے۔ کروڑوں، اربوں انسان اپنی صبح کا آغاز ذات باری تعالیٰ کے بعد اس کے نام سے کریں گے۔ اپنی شامیں اس کی یاد سے مشکبار کریں گے۔ ایک لاکھ احادیث امام بخاری کو زبانی یاد تھیں جو انہوں نے کہا، جو انہوں نے کیا، جو دیکھا، جو محسوس کیا، جس پر خوش ہوئے، جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ماکولات، مشروبات، معمولات زندگی، اگر دو دندان مبارک شہید ہوتے ہیں تو لوگ اپنے جبڑے توڑ دیتے ہیں، اگر خون کا ایک قطرہ گرتا ہے تو لاکھوںاشک پیازی ہو جاتے ہیں۔ موئے مبارک مرجع خلائق بن جاتا ہے۔ پاپوش، تخت پوش چومتے ہیں۔ دریدہ کالی کملی جو عقیدت کا استعارہ بن گئی۔ مدینہ جو جذبوں کا نگینہ ہو گیا۔ آدم سے لے کر ایں دم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گزرے۔ شاہان پُرغرور، سکندر و دارا آئے اور پیوند خاک ہو گئے۔
لاکھوں سالوں میں اربوں انسانوں کے بیچ کیا کوئی ایسا انسان پیدا ہوا ہے؟ چشم فلک حیراں ہے۔ دھرتی نازاں، ملائیک انگشت بدنداں، ماورائے فہم و ادراک، شہنشاہ لولاک، دریتیم، اُمی، جو مدینة العلم تھا، سراسر حلم تھا۔ ماہر حرب تھا۔ سید المرسلین آں امام اوّلین و آخریں!
چونکہ غسل خانوں پر دباﺅ کم ہو گیا تھا اس لیے کچھ حاجی غسل کرنے چلے گئے باقی خیمے میں جا کر لیٹ گئے، میں بے مقصد میدان میں نکل گیا۔ اندھیرا ہو گیا تھا لیکن ان گنت ٹیوب لائٹس کی وجہ سے روشنی کا ایک گولا آسمان کی طرف اٹھ رہا تھا۔ کافی خیمے خالی ہو چکے تھے باقی ماندہ لوگ بھی بے تابی سے بسوں کا انتظار کر رہے تھے ہر بس کو دو تین پھیرے لینے تھے، چلتے چلتے میں جبل رحمت کے پہلو میں آ گیا۔ وہی پہاڑ جو صبح ہاﺅس فل کا منظر پیش کر رہا تھا، اب بالکل ویران تھا۔ دور دور تک کوئی ذی نفس نظر نہ آتا تھا تیز ہوا سرسراتی ہوئی پہاڑ سے میدان عرفات کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے پہاڑ پر چڑھنا ممکن نہ تھا، میں نیچے ہی ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ ”کیا سوچ رہے ہو؟“ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے پہاڑ سرگوشیاں کر رہا ہے۔ ارے پربت بھی بولتے ہیں؟ میں نے اس بے آب و گیاہ پہاڑ کی طرف دیکھا جو اندھیرے میں گہرا سرمئی ہو گیا تھا۔ ”جس چیز پر رسالت مآب کے قدم پڑ جائیں وہ بے جان نہیں رہتی“۔ اس کے لہجے میں تفاخر تھا۔ چودہ سو سال سے حاجیوں کا جم غفیر دیکھ رہے ہو، کیسا محسوس ہوتا ہے؟ ”اس ایک دن کا انتظار سارا سال رہتا ہے“۔ ایک دن کی چاندنی پھر اندھیری رات، تنہائی؟ ”نہیں ایسی بات نہیں، یہ ایک دن سارے سال پر بھاری ہے۔ حاجیوں کے حلق سے نکلے ہوئے اللہ اکبر، الحمد اللہ اور سبحان اللہ کے لفظوں کی خوشبو سارا سال مجھے تر و تازہ رکھتی ہے۔ وہ کیسا لمحہ ہو گا جب رسالت مآب تمہاری چوٹی پر کھڑے ہوئے آخری خطبہ دے رہے تھے؟“
لوگوں نے تو محض سنا تھا۔ دہن مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ میرے سینے پر نقش ہو گیا، کیسا روح پرور منظر تھا رسول اکرم صحابہ کرامؓ کے جلو میں اپنے ناقہ قصویٰ پر بیٹھے تھے۔ دائیں بائیں صحابہ کرامؓ کھڑے تھے۔ رفیق نبوت حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، اہل بیت، باب علم بوترابؓ، آپ کے عم زاد فضل بن عباسؓ کمسن ابن عباس، حضرت بلالؓ انصار مدینہ، مہاجرین، اہل قریش کتنے نام گنواﺅں، وہ جنہوں نے اسلام کی راہ میں ان گنت قربانیاں دی تھیں۔ وہ بھی جنہوں نے حضور پر بے پناہ مظالم ڈھائے تھے۔ معافی جو مل گئی تھی۔ خطبہ سے فارغ ہو کر آپ نے حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم دیا۔ ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی، پھر روانہ ہوئے، حد نگاہ تک حاجیوں کے قافلے تھے ہر شخص کی خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ چلے۔ چہرہ مبارک کا دیدار کرتا جائے۔ آپ کے ارشادات سنتا جائے، آپ ان کو صبر کی تلقین کرتے رہے۔ السکینہ یا ایھاالناس السکینہ، یاایھا الناس۔ (لوگو سکون کے ساتھ، لوگو سکون کے ساتھ) راستے میں ایک جگہ اتر کر طہارت کی۔ اسامہ نے کہانماز کا وقت قریب ہے۔ فرمایا نماز کا موقع آگے آتا ہے جب مزدلفہ پہنچے تو نماز مغرب ادا کی پھر فورای ہی نماز عشاءپڑھی۔ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر کیا ہوا؟ میرا اشتیاق جنون کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ طویل قصہ ہے۔ جاﺅ اہل قافلہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں، اگر دیر کر دی تو مزدلفہ نہ پہنچ پاﺅ گے۔ پھر کبھی آنا۔آج مسجد اور شہر دیدنی ہیں۔ دراصل جس جگہ رسول کے قدم پڑ جائیں وہ جگہ محض خطہ زمین نہیں رہتی بلکہ مرجع خلائق بن جاتی ہے۔ خاک شفا بن جاتی ہے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے صرف وہ اپنے آپ پر ناز نہیں کرتی بلکہ سارا جہاں اس پر رشک کرتا ہے۔ خاک شفا، جسے محبان رسول آنکھوں سے لگاتے ہیں، چومتے ہیں باوضو ہو کر اس کا لمس حاصل کرتے ہیں۔
نماز ختم ہو گئی لیکن میں ہنوز تاریخ کے حصار میں تھا۔ میرے کان وہ آخری خطبہ سن رہے تھے جو رسول اللہ نے منبر پر بیٹھ مسلمانوں کو دیا تھا۔ میری آنکھیں اس نقش پا کو ڈھونڈ رہی تھیں جو نبی کا تھا۔ میرا سارا وجود ریزہ ریزہ بکھر رہا تھا، قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا۔ بوند بوند گھل رہا تھا لیکن تلاش جاری تھی۔ جستجو اور آرزو ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ حیات ظاہری کا آخری لمحہ آن پہنچا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ کون ہے؟ جناب سیدہ پوچھتی ہیں۔ آنے دو! رسالت مآب فرماتے ہیں۔ ملک الموت اجازت نہیں مانگتا۔ لیکن اس نے تو دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: شاید پہلی اور آخری بار کھٹکھٹایا ہے۔ملک الموت اندر آتا ہے دست بستہ مو¿دب، نگاہیں نیچے کیے ہوئے، اجازت ہے؟ اس کی زبان میں لکنت آ جاتی ہے۔
”ہاں! اپنا فرض سر انجام دو“ رسالت مآب زیر لب تبسم کرتے ہیں۔ زور کی آندھی چلتی ہے۔ شہر میں بھونچال آ جاتا ہے۔ سورج غم سے اپنا چہرہ چھپا لیتا ہے دھرتی کا سینہ چاک ہو جاتا ہے۔ سمندروں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ اتنے میں فضا میں ایک آواز گونجتی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024