منگل ،19ربیع الاول 1443ھ26 اکتوبر 2021ء
مہنگائی اللہ کی طرف سے ہے، ہر صبح فرشتہ آ کر نرخ مقرر کرتا ہے۔ رہنما پی ٹی آئی
کہنے کو تو اگرچہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی والوں کے علاوہ جماعت اسلامی بھی مہنگائی کے خلاف کمر باندھ کر احتجاجی تحریک چلا رہی ہے۔ مگر اس احتجاج میں حیرت انگیز طور پر عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ میں عوام ہی سب سے زیادہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور دن رات جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکمرانوں کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود احتجاجی تحریک میں لوگوں کی عدم شرکت سمجھ سے بالاتر ہے یا پھر ہو سکتا ہے وہ
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
کہہ رہے ہوں۔ اس وقت عوام کی جان ناتواں میں اتنی طاقت بھی نہیں رہی کہ وہ کسی کڑے امتحان کا سامنا یا مقابلہ کرے۔ لگتا ہے حکمرانوں نے عوام کو روزی کمانے کے چکر میں ایسے اُلجھا دیا ہے کہ اب وہ کمانے کے چکر سے باہر نکلنے کا سوچنے سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی جب حکمران ایسے مشورے دے رہے ہوں کہ مہنگائی اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ ہر صبح فرشتہ نرخ مقرر کرتا ہے تو پھر کون کافر ہو گا جو خدائی معاملات میں مداخلت یا اعتراض کا سوچ کر اپنی دنیا اور عاقبت خراب کرے۔ کیا ظالم ہیں یہ حکمران طبقے کے لوگ جن کی نمائندگی کرتے ہوئے مردان سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے طفیل انجم نے ایسی نرالی منطق پیش کی ہے کہ یہ تو ضیاء الحق کے ریفرنڈم والے سوال سے بھی زیادہ خطرناک اور جلیبی کی طرح سیدھی منطق ہے۔اس پر ہم صرف
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہی کہہ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
کے پی پولیس کی بے حسی ، ٹوٹے بازو پر ہتھکڑی لگا بچہ عدالت میں پیش
اس حافظ قرآن بچے پر الزام یہ ہے کہ یہ اپنے والد اور ساتھی کے ہمراہ موٹر سائیکل چوری کرتے پکڑا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر واقعی یہ بچہ بڑا باکمال ہے جو پلاسٹر چڑھے ٹوٹے بازو کے ساتھ موٹر سائیکل چوری کرتا ہے۔ اس حالت میں تو کوئی تگڑا نوجوان کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس ہاتھ سے پانی کا گلاس نہیں پکڑ سکتا۔ مگر یہ بچہ موٹر سائیکل چوری کر لیتا ہے۔ شکر ہے کہ عدالت نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پہلا کام تو یہ کیا کہ اس ہیڈ کانسٹیبل کو معطل کر دیا جو اس بچے کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا تھا۔ یہ بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم وردی پہن کر خود کو نجانے کیوں انسانوں سے علیحدہ کوئی اور ہی مخلوق سمجھ لیتے ہیں، فرعونیت ہمارے اندر رچ بس جاتی ہے۔ رحمدلی کے جذبات نجانے کہاں جا کر سو جاتے ہیں۔ ہم انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ چلیں یہاں تک بات قابلِ برداشت ہوتی ہے مگر یہ چھوٹے بچوں پر ترس نہ کھانا، انہیں اذیت دینا، یہ کہاں سے ہم نے سیکھا ہے۔ کیا ہم انسان نہیں؟ چھوٹے بچوں پر تو ظالم سے ظالم انسان کو بھی ترس آتا ہے۔ مگر شاید پولیس والے شاید واقعی کوئی اور مخلوق بن جاتے ہیں۔ جنہیں کسی پر ترس نہیں آتا۔ اب اس بچے کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے۔ اس کے اس بچے پر جو اثرات ہوں گے کیا اس کا ازالہ کبھی ہو سکے گا؟
٭٭٭٭
پاکستان ہی نہیں دبئی میں بھی جشن
وہ پاکستانی جو ہار کے خوف سے سٹیڈیم کی بجائے اپنے فلیٹوں اور رہائشی کمروں میں پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے وہ بھی پاکستان کی شاندارفتح پر دبئی کی سڑکوں ناچتے گاتے نکل آئے۔ یوں لگ رہا تھا یہ دبئی نہیں لاہور، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور یا سرینگر ہے جہاں ہزاروں افراد آتش بازی کرتے اور ڈھول بجاتے خوشیاں منا رہے تھے۔ دوسری طرف بھارتی شہری شرم سے منہ چھپاتے بھاگتے پھر رہے تھے۔ انہوں نے نہایت مکاری کے ساتھ میچ سے بہت پہلے ہی سٹیڈیم کی 80 فیصد سے زیادہ ٹکٹیں خرید لی تھیں تاکہ بھارت کی فتح کا شاندار جشن سٹیڈیم میں منا کر دنیا کو بھی دکھائیں۔ مگر ’’حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘یہ تمنا ان کے دلوں میں ہی رہ گئی۔ سٹیڈیم میں میچ کے آخری لمحات میں ایسی خاموشی تھی گویا کاٹو تو لہو نہیں۔
دبئی میں جو کچھ ہوا پوری دنیا نے دیکھا۔ کرکٹ کے کروڑوں شائقین نے ورلڈ کپ کے اس سنسنی خیز میچ کو صرف دیکھا ہی نہیں محسوس بھی کیا۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں تو اس معرکۃآلارا میچ کے وقت ہو کا عالم تھااور سناٹا چھایا رہا۔ دونوں ممالک کے کروڑوں شائقین دم سادھے ٹی وی سکرینوں پر نظر جمائے۔ بیٹھے تھے۔ دبئی سٹیڈیم میں ہزاروں لوگ اپنی اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ سٹیڈیم اس وقت پانی پتی کا میدان بنا ہوا تھا جہاں ہر طرف شور تھا۔ یہ میچ ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی سیریز میں پاکستان اور بھارت کا یہ پہلا ٹاکرا تھا۔ بھارتی سورما بڑے بڑے دعوے کر کے رنگ بازی میں مصروف تھے ان کا میڈیا بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہا تھامگرجب میچ شروع ہوا تو یوں لگا جیسے بابر کی مختصر سی فوج نے ہندوستان کو زیر کر لیا ہے۔ تخت دہلی نہ سہی دوبئی سٹیڈیم میں بھارتی لشکر کو مٹی کے مادھو بنا کر میدان کی دھول چٹا دی۔ سوشل میڈیا پر کیا خوب تبصرہ چل رہا ہے۔ ’’بھائی وہ صرف دو تھے جنہوں نے یہ حالت کر دی‘‘ بابر اعظم نے رضوان کے ساتھ مل کر پوری بھارتی ٹیم کو روئی کی طرح دھنک ڈالا۔
٭٭٭٭
سعودی عرب کا ماحولیاتی منصوبوں کے لئے 700 ارب ریال کے پیکج کا اعلان
سعودی عرب نے ماحولیاتی منصوبوں کے لیے 700 ارب ریال کے جس پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس سے واقعی صحرا گل و گلزار بن سکتا ہے اور دیکھنے والے
یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
کہتے رہ جائیں گے۔ جن لوگوں کو شاعری سے شغف ہے۔ انہوں نے میر انیس کو پڑھا ہو گا۔ جب ان کا قلم جوش میں آتا تو پھروہ صحرا کو بھی گلزار بہشت بنا کر دکھا دیتے تھے۔ اب سعودی حکومت اپنی مملکت کے 20 فیصد رقبے کو قدرتی جنگل بنانے کے لیے تیار ہے۔ اس منصوبے کے تحت 45 کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔ اس طرح سعودی عرب جہاں ماحولیاتی تحفظ اور بہتری کی طرف گامزن ہو گا، وہیں2060 ء تک وہاں کاربن کا اخراج صفر ہو جائے گا۔ یہ سب کسی تخیلاتی کہانی کا حسین باب محسوس ہوتا ہے مگر ایسا حقیقت میں ہو رہا ہے۔ ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسل جب سعودی عرب کو ہرا بھرا دیکھے گی تو وہ ضرور پوچھے گی وہ صحرا ئے عرب کہاں ہے جس کے قصے ہم کتابوں میں پڑھا کرتے تھے؟ اس وقت تک شاید مکہ شریف اور اس کے اطراف کے علاقے منیٰ مزدلفہ اور عرفات میں بھی قطار اندر قطار لگے سبز درخت حاجیوں کو سایہ فراہم کرتے نظر آئیں گے۔ سعودی حکومت اس عظیم الشان منصوبے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔
٭٭٭