آزادی مارچ؟؟؟؟
آزاد قوموں کی بقا اور استحکام اور ترقی اور خوشحالی کا انحصار اجتماعی شعور پر ہوتا ہے۔ جو ذاتی نفع و نقصان پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں۔ آزاد قومیں ہی اجتماعی مفاد کے لئے ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کر کے حالات حاضرہ کی مشکلات کے پیش نظر مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ پاکستان اس وقت اندرونی طور پر غربت، بے روزگار اور معاشی بحران جیسے مسائل میں اُلجھا ہوا ہے۔ ان مسائل سے نبٹنے کے لئے ہمیں باہمی انتشار کی بجائے اُس مستحکم سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ جس نے چین کو مستحکم کیا ہوا ہے وہاں سیاسی نظام کے استحکام کی وجہ سے ’’دھرنوں کی سیاست‘‘ کی بجائے وہ تعمیری پلیٹ فارم ہے جہاں سے اپنے مؤقف کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ فوکویالہ اپنی کتاب the trust میں بھی اسی بات کا احاطہ کرتا ہے کہ وہاں سارے معاملات چاہے عوام سے منسلک ہوں یا حزبِ مخالف سے اعتماد کی بنیاد پر چلے ہیں لیکن ہمارا المیہ ہے کہ برسرِ اقتدار حکومت کو ہٹانا اور نگران حکومت کی زیر نگرانی انتخابات کا ڈھونگ رچا کر پانچ یا دس فی صد اقلیت کو جمہور کا تاج پنہا کر اقتدار میں لانا ماضی کا قصہ رہا ہے۔ اور اُسکی گونج آج بھی سُنائی دے رہی ہے۔ درحقیقت ہمارا مسئلہ تو دھرنوں کو سیاست اور ’’حکومت گراؤ‘‘سے کبھی گمبیھر ہے۔ اور وہ مسئلہ یو این او میں عمران خان نے بڑی دلیری سے لڑا ہے اور یہ مقدمہ کشمیر کا حل، اسلامو فوبیا اور امتِ مسلمہ کے مسائل سے منسلک ہے۔ یہ وقت شکایتوں کا نہیں بلکہ مل بیٹھ کر عملی اقدامات کا وقت ہے کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اندرونی خلفشار سے بھارت نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور آج بھی ہمارے خلفشار سے بھارت ہی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ذرا ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمارے سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر آنکھوں پر کج فہمی کی پٹی باندھ کر کبھی مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اور کبھی ہوس اقتدار کی خاطر یہ نعرہ لگایا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف انارکی کا راستہ ہموار ہوا۔ اگر ہم واقعی اسلام کے تحفظ کے علمبردار ہیں تو اسلام تو قومی مفادات اور اجتماعی مفادات کی بات کرتا ہے۔ میثاق مدینہ اور خطبہ حجتہ الوداع اسکی بہترین مثالیں ہیں۔ درحقیقت اس سیاسی انتشار کی وجہ یہ ہے کہ ستر سالوں سے ہماری ذہنی پستی کی وجہ ہمارے اجتماعی شعوری کی جڑوں میں چُھپا ہوا خودغرضی کا وائرس ہے۔ اور اُسکا جڑ سے علاج کرنے کی بجائے ہم آج تک صرف پتے جھاڑنے اور شاخیں کاٹنے تک محدود کئے ہوتے ہیں۔ ماحول میں ڈپریشن ہو تو قومی فضا میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ اور قومی فضا میں ہچکولے کھاتا سیاسی بے یقینی کا خلا تعمیری کاموں میں مداخلت کا سبب بنتا ہے۔ اور پھر بغیر جائز مطالبات کے حکومت گراؤ کا سلسلہ چل نکلے تو سیاسی استحکام کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی ہے۔ ہمارا چارٹر آف ڈیمانڈ درحقیقت عوام کے مسائل کا حل ہونا چاہئے اور یہ بات مذاکرات سے ممکن ہے۔ احتجاج تو بعد کا راستہ ہے۔ لیکن جب ہم تمام آپشنز بند کر کے آخری راستہ اختیار کرتے ہیں تو سیاسی انتشار اور معاشی بحران میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے دھرنے، ذاتی، مفادات، وزیراعظم سے اسعضیٰ اور نئے انتخابات وہ میوزیکل چیئر کا مشغلہ بن گیا ہے کہ پاکستان بار بار ان تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے تین آپشنز ہیں۔ سیاست دان نوشتہ دیوار پر پڑھ کر خلوص نیت سے مستحکم مربوط نظام پر متفق ہوں۔ مذاکرات کے ذریعہ مسائل کا حل ممکن بنایا جا سکے۔ اور معیشت نیچے سے اوپر کی طرف پروان چڑھے۔ اس سلسلہ میں حکومت کو بھی اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہماری سوچ اور عمل دخل اُلٹے اہرام کی شکل میں ہے۔ ہمارا فکر اور عمل اوپر سے نیچے کی طرف لڑھکتا ہے۔ اور یہی خرابی کی اصل وجہ ہے۔ کیا ہم آج غریب آدی کے مسائل کی بات کرتے ہیں۔ اگر اسکا جواب نہیں ہے تو یقیناً ہم میں فکری بحران اور اُس خود اعتمادی کا بحران ہے جو اجتماعی شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ چارٹر آف ڈیمانڈ میں غریب آدمی کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو ہمیں اس بات کی ضرورت محسوس ہو گی کہ موجودہ وقت سیاسی تنازعات کا نہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا وقت ہے۔ تا کہ ہم دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ہم اپنے مسائل اعتماد اور یقین کے ساتھ یو این او میں اٹھا سکتے ہیں ہماری صفوں میں بھی اتحاد ہے۔ اور اس میں دراڑ ڈال کر دشمن فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن اسکے لئے ہمیں اپنے فکر اور عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔