لوہے کابھاری بھرکم احساسات اور جذبات سے عاری بلڈوزر سرکاری جگہ پر ناجائزتعمیر شدہ کچے گھر کو گرارہاتھاآس پاس کھڑے لوگ افسردگی سے گرتاہوا مکان دیکھ رہے تھے ایک سفید داڑھی والابزرگ افسروں کے سامنے ہاتھ جوڑجوڑ کراللہ اور رسول کے واسطے دے کر دہائیاں دے رہاتھایہ کچا پکامکان میری ساری زندگی کی کمائی ہے خداکیلئے بلڈوزر کوروکو اس گھر میں میرا سامان ہے چھوٹے بچے ہیں میں انہیں لے کرکہاں جائوں گابے بسی کالفظ تو سب نے سناہے لیکن بے بسی کیاہوتی ہے تو ایسے منظردیکھنے کے بعد بے بسی کی حقیقت عیاں ہوتی ہے ،لیکن نہ لوہے کے بلڈوزر نے اس سفید ریش کی سنی اور نہ انسانی روپ میں مشینری بنے روبوٹ افسر اس کی سن رہے تھے ،اس کچے مکان کے باسیوں کی چیخ و پکار آسمان تک جارہی تھی لیکن وہاں کھڑے سرکاری افسروں کے کان بند تھے ، دور کھڑی بچیاں اپنی ماں کے گلے لگ کررو رہی تھیںماں بین کررہی تھی سینہ پیٹ رہی تھی کیوں نہ بین کرتی کیوں نہ روتی اس کا تنکا تنکا جوڑ کر بنایاہوا آشیانہ جو بکھر رہاتھا اس کی بچیوں اور خود کی عصمت اورچادر کی محافظ چاردیواری جو گرائی جارہی تھی اس غریب گھرانے نے قیامت کب دیکھنی تھی ان کیلئے قیامت تو ڈھائی جاچکی تھی ، 8سال کابچہ اپنے گھر کو تباہ ہوتے دیکھ کرتڑپ رہاتھاچیخ رہاتھا مچل رہاتھا اس بچے کاتڑپناپھڑکنا ایسے تھا جیسے ذبح کئے جاتے وقت قربانی کے جانور کا ہوتا ہے ایسے لگتا تھا جیسے گھر نہیں اس کی جان جارہی ہو وہ اپنے سر پر ہاتھ مارتا ہوا بار بار بلڈوزر کے آگے جانے کی کوشش کرتاجیسے وہ بلڈوزر کو روک کراپنے گھر کوبچا لے گالیکن وہاں کھڑے کالی وردی والے اسے پکڑ کردور کردیتے اس کا تڑپناپھڑکناایسے تھا جیسے اس کے جسم کا رواں رواں پکار کر کہہ رہاہوکہ میرا گھر نہ توڑو میراتو سب کچھ یہی ہے میں سکول سے واپس کس جگہ واپس آئوں گا بچوں کے ساتھ کھیلنے جائوں گا تو واپس کہاں آئوں گا، میرا بستہ رکھنے کی جگہ تو اسی مکان میں ہے میرے کپڑے تو اسی مکان کے اندر لکڑی کے صندوق میں رکھے ہیںرات ہوگی تو کہاں سوئوں گاصبح اٹھوں گاتو ہمارا چولہاکہاں ہوگا میں ناشتہ کہاں بیٹھ کر کروں گا میں کہاں رہوں گالیکن کسی نے اس کے اندر کی مچلتی ہوئی آواز نہ سنی اس کا تڑپنا مچلنا پھڑکناکم نہ ہوا تو اس کے بڑے بھائی جو صرف بے بسی سے رو رہے تھے انہوں نے اسے پکڑ کر اپنی گود میں بھرلیا،بلڈوزر کی کاروائی میں کچھ دیر لگی اور تمام گھر اور اس میں رہنے والے لوگوں کے جذبات خش وخاشاک کی طرح بکھر گئے، سرکاری لوگ ایسے سینہ تان کر وہاں سے نکلے جیسے انہوں نے بہت بڑا معرکہ طے کرلیاہو،جیسے اس ویران سرکاری جگہ پر ایک اس مکان کی وجہ سے سرکار کے سارے کام رکے ہوئے تھے ،رات ہی کی تو بات ہے جب اس بچے نے ٹوٹی چارپائی اورپھٹے ہوئے بستر پراپنی ماں کی گرم آغوش میں مزے سے لیٹے خواب دیکھاتھا جس میں وہ سکول جانے سے پہلے ناشتے میں دو پاپے اور پتلی چائے پی رہاتھا کہ دروزاہ بجااور کوئی ان کے گھر شادی میں بچا ہوا رات کا کھانا دے گیا، وہ کچھ نان اور قورمہ نہیں تھا بلکہ اس کیلئے خوشی کی انتہاتھی کب ان کے گھر ایسا اچھا اور قیمتی کھاناپکتاتھا اس نے مزے لے لے کر وہ کھاناکھایااور پھر گہری نیند اس پر مہربان ہوگئی،اسے کیامعلوم تھا کہ یہ پیاری میٹھی نیند اس گھر میں اس کی آخری نیند ہوگی پھر نہ اسے یہ ٹوٹی چارپائی میسر ہوگی اور نہ اس کے گھر کے کچے درو دیوار۔انسان بھوکا ننگا رہ سکتاہے لیکن سر چھپنانے کی جگہ کے بغیر نہ وہ اپنی تنہائی میں رو سکتاہے نہ خود کے غم چھپاسکتاہے نہ اپنی ننگ بھوک کو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکتاہے چھت کے نیچے وہ اپنے تمام دکھوں،محرومیوں اور نارسائی کے ساتھ کم از کم باعزت زندہ رہ سکتاہے آئیے اب حکومت کی کارکردگی پر کسی بھی فلاحی حکومت کاپہلابنیادی کام لوگوں کوباعزت طریقے سے روٹی ،کپڑا ،مکان دینے کاہوتاہے لیکن بدقسمتی سے کوئی حکومت یہ تینوں اشیاء حقداروں تک باآسانی پہنچانے میں کامیاب نہ ہوسکی لیکن یہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے ابتدائی دنوں میںان تینوں اشیاء کولوگوں کودینے کے بجائے ان سے چھین لینے کاعزم کرلیاہے ،اس ’’Directionless ‘‘ حکومت نے اپنی ابتدا ہی میں کئی ایسے اقدامات بیک وقت ہی شروع کردیے جن کے برے اثرات ڈائریکٹ عوام پر پڑرہے ہیں ایک طر ف سرکاری افسران کو پکڑ لو،جکڑ لو، بھاگنے نہ پائے کی رٹ لگارکھی ہے تو دوسری طرف عام گھریلو استعمال کی اشیاء سمیت بجلی ،گیس، پٹرول ،کھادکی قیمتیں بڑھادیں ،مختلف ٹیکسوں میں اضافہ کردیا،تیسری طرف پورے ملک میں تجاوزات کے نام پر توڑ پھوڑ شروع کردی یعنی سرکاری افسروںنے پکڑے جانے کے خوف سے صحیح کام بھی روک دیے ،مہنگائی کاخوفناک طوفان کھڑاہوگیااور عوام کوکھاناپینابھول کر اپنے آشیانے کی فکر پڑ گئی ان تمام اقدامات سے براہ راست عوام زبردست متاثر ہورہے ہیں ۔ حکومت کا ایسا کونساکام ہے جس سے عوام نے کوئی ایک سکھ کاسانس لیاہواب تک’’ روای دکھ ہی دکھ لکھ رہاہے‘‘ پورے ملک میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو اس کے وزار، کمشنر ،ڈپٹی کمشنر اور ماتحت عملے کو کسی کویہ معلوم نہ تھاکہ تجاوزات کہتے کسے ہیں اور کرناہے کسی شہر میں انہوں نے صرف دکانوں کے آگے دھوپ اور بارش سے بچائو کیلئے شیڈ اور دکان کے اندر جانے کیلئے بنائی گئی سیڑھیاں گرادیںاورسمجھ لیاکہ تجاوزات گرادیں کسی شہر میں شادی ہال گرادیے ، کسی جگہ غریبوں کے جھونپڑے اور چھپر گرادیے ،جب عوامی احتجاج بڑھا تو حکومت کو یاد آیاکہ’’ او ہو یہ تو غلط ہوا‘‘ حکومت کی جانب سے ایک لیٹر صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنر کو لکھاگیاکہ جہاں جہاں مکان گرائے گئے ان کی رپورٹ بھیجیں اور خبردار آئندہ کسی کچی آبادی کاکوئی مکان گرایاگیاتو ڈپٹی کمشنر ذمہ دار اور جوابدہ ہوگا، لیکن ’’ہائے اس زود پریشاں کا پشیماں ہونا‘‘ آدھے شہروںکواجاڑ کر ان کوخیال آیاکہ غلط ہواتجاوزات کی آڑ میں بجلی گرائی گئی توصرف غریبوں پر توڑ پھوڑ کی گئی تو صرف غریبوں کے مکانات ، دکانات،عارضی چھپروں اور ٹھیوّں کی کسی امیر کاکوئی بنگلہ کوٹھی پلاٹ پلازہ ہوٹل یاپٹرول پمپ’’ ناجائز‘‘ نہیں گیاماسوائے چند ایک سیاسی دشمنوں کے بلکہ انصاف کرنے والوں نے تو خود وزیر اعظم کی ناجائز بنی گالہ کوجائز کرانے کیلئے انہیں وقت دے دیاواہ کیاانصاف ہے معلوم ہو تاہے کہ اس ملک میں سارا انصاف صرف ’’انصافیوں ‘‘ کیلئے ہی رہ گیاہے ،کاش ان غریبوں کوبھی وقت دے دیاجاتاتاکہ وہ بھی اپنے نئے آشیانے کا بندوبست کہیں اور کرسکتے،اس حکومت کو شاید غریب کے آشیانوں سے کوئی ’’چڑ‘‘ہے اس لئے’’ آشیانے بنانے والے ‘‘یا اندر کردیے گئے یا دربدر کردیے گئے ۔مہنگائی کے جن کو کھلی چھوٹ دے دی گئی صرف ایک ماہ کے دوران اشیاء خوردونوش اور گھریلواستعمال کی اشیاء کی قیمیتں 20%فیصد تک بڑھادی گئیں،گھریلو گیس میں اضافہ ،پٹرول میں اضافہ ،بجلی کے بلوں میں اضافہ مہنگائی کیابڑھی گھریلوجھگڑوں میں اضافہ ہوگیا محدود آمدنی والے میاں بیوی کی روز کی لڑائی اشیاء خوردو نوش کے روز کے نئے ریٹ کی وجہ سے ہونے لگی ہے نتیجہ ہر چیز پر کٹ لگنے لگاہے چینی آٹا دالیں گھی سبزیاں جتنی پہلے خرید کی جاتی تھیں اب ان سے دو حصے کم خرید کرگزارہ کرناپڑرہاہے ، دیہاتی مثل مشہورہے کہ’’ دیہاتی مرغی جب کھاتا ہے جب وہ بیمار ہویاپھرمرغی بیمار ہو‘‘لیکن وہ مثال اب صرف ’’دیہاتی‘‘ نہیں رہ گئی بلکہ’’ شہری‘‘ بھی ہوگئی ہے،بجلی کے ریٹ پہلے ہی کیاکم تھے کہ اس میں دو ماہ میں تین مرتبہ اضافے نے تو صارفین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بھئی! آج کے دور میں بجلی ایسے ہی ہے جیسے انسانی زندگی کیلئے روٹی،آدمی کا جینااور مرنا سب بجلی کے ساتھ ہے لہذا جب بجلی ایک آدمی کی پہنچ سے دور کردی جائے گی تو وہ اپنی زندگی ،کاروبار یافصل بچانے کیلئے کچھ بھی کرے گااگر بجلی چوری روکنی ہے تو بجلی سستی کردو خودبخودچوری رک جائیگی ،یہاں بھی وہی فارمولا کار فرماہے، بڑے آدمی کو ہاتھ لگانا نہیں چھوٹے آدمی کوچھوڑنانہیں ،روزانہ بجلی چوری میں ہزارروں پرچے کرائے جارہے ہیں کسی ایم پی اے، ایم این اے ،بڑے تاجر ،انڈسٹریل کاروباری شخص کا نام سامنے نہیں آئے گا۔تین صوبے بجلی کا بل دینا ایک’’ مذاق‘‘ سمجھتے ہیں جبکہ ایک صوبے کے لوگوںکو اس ’’بے رحم چکی‘‘ میں روزانہ پیس کر خون تک نچوڑا جارہاہے ۔جنھوں نے ملک لوٹا ان سے ایک پیسہ واپس نہیں لیاگیا روزانہ ٹی وی اخبارات میں ایک قسم کے بیانات ، اِس نے لوٹ لیااُس نے لوٹ لیاسن سن کرکان پک چکے ہیں بھئی عوام نے تو پیسہ نہیں لوٹا انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ لوٹ کرحکمران جاتے ہیں وصولیوں کیلئے صرف عوام رہ گئے ہیں
مہنگائی کے اثرات نہ لوٹنے والوں پر پڑنے ہیں نہ حکومتی افرادپر، یہ تمام بوجھ پہلے بھی عوام اٹھاتے رہے ہیں اب بھی اٹھارہے ہیں اور آئندہ بھی اٹھائیں گے ،پہلے والے لوٹ کر چلے گئے اب آپ کی باری ہے آپ بھی لوٹ لیں عوام کاسکھ چین تو آپ نے لوٹ لیاہے عوام نہ پہلے کچھ کرسکے نہ اب کررہے ہیں اور نہ آئندہ کچھ کرسکیں گے ، عوام کے حصے میں صرف بیانات پریس کانفرنسزاور تبصرے ہی آئیں گے باقی اللہ اللہ خیر صلا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024