میں حیران رہ گیا ہوں کہ خادم حرمین شریفین کا کتنا بڑا دل ہے۔اسے فراخدلی ہی تو کہتے ہیں کہ پاکستانی جب معاشی بد حالی کا شکار ہیں اور ڈیفالٹ کے دہانے پر تو خادم حرمین شریفین نے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔تین سال میں بارہ ارب ڈالر دان کر دیئے اور یہ وعدہ بھی کہ ضرورت پڑی تو اس پیکیج پر نظرثانی بھی کی جائے گی۔ یعنی آگے کے لئے بھی امید پیدا ہو گئی۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ جب سعودی عرب کو خطرات در پیش تھے تو پاکستانیوںنے کیا کیا نخرے نہیں دکھائے تھے۔ ہم نے کہا تھا کہ ہم پرائی جنگ میں نہیں پڑیں گے۔نائن الیون کے بعد جب پاکستان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا تو اس نے تیل کی فراہمی کا ایسا ہی پیکیج دیا تھا۔ یعنی پٹرول تو جی بھر کے لے لو اور ادائیگی جب چاہے کر دینا۔ نہ کرنی ہو تو نہ کرنا۔ہم اس سعودی احسان کو بہت جلد بھول گئے اور ہم نے سوچا کہ یمن کے خطرے سے نمٹنے کے لئے ہم نے خادم حرمین شریفین کی مدد نہ کی تو یمن والے ان کا نام ونشان مٹا ڈالیں گے۔ یہ ہماری بھول تھی کہ دنیا میں صرف ہم ہی ایک لڑاکا ملک ہیں۔ میںنے ان دنوں بھی قوم سے پوچھا تھا کہ جب اسی سعودی عرب کے بدو قیصرو کسری کو ملیا میٹ کر رہے تھے تو کیا ہم نے انہیں اپنی افواج بھیجی تھیں۔ہم نے جنرل راحیل شریف کو کیا بھیجا کہ سوال اٹھے ا ور اٹھتے ہی چلے گئے۔ بھلا یرموک، قادسیہ،اجنادین اور مدائن کی جنگیں ہمارے سپاہ سالاروںنے فتح کر کے دی تھیں ،۔ کیا ابو عبیدہ بن جراح، سعد بن وقاص، خالد بن ولید ہمارے کسی مارشل ایریا سے تعلق رکھتے تھے۔
خدا کی پناہ۔ ہم نے سعودی عرب کو تنہا چھوڑنے کے لئے ایسی ایسی تاویلیں گھڑیں کہ دماغ چکر اجاتا تھا۔ہم نے کہا کہ ایک طرف بھارت،دوسری طرفر افغانستان اور تیسری طرف ایران کامحاذ کھول کر ہم زندہ کیسے بچیںگے۔ مگر سعودی عرب نے ہمارے بغیر زندہ رہ کے دکھا دیا۔ یہ درست ہے کہ ہم نے بھی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی مگر سعودی عرب نے دہشت گردوں کا منہ توڑنے میںجو کامیابی حاصل کی،اس پر ایک دنیا ششدر رہ گئی۔ اور یہ جنگ سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کے بغیر لڑی۔
اسی سعودی عرب کے پاس ہم اپنی معاشی ا ور مالی مدد کی درخواست لے کر گئے تو اس نے کوئی طعنہ نہیں دیاا ور دامے درمے سخنے ہر لحاظ سے مدد کا وعدہ کیا۔آج ہم روتے ہیں کہ پاکستان ا ور سعودی عرب کے تعلقات میںسرد مہری آ گئی تھی۔ سعودیہ نے ویزہ فیس دو ہزار ریال کر دی تھی۔ اور عرب امارات سے بھی ہم دور ہو گئے۔ پتہ ہے کیوں دور ہو گئے ، ہمارے ایک بلوچ منسٹر نے بڑی افلاطونی بات کی تھی کہ دبئی تو ایک زمانے میں ماہی گیروں کی بستی تھی، آج بڑا اتراتا پھرتا ہے۔ ہم نے کویت کے بادشاہ کو خالی ہاتھ واپس دوڑایا اور یہ تسلی دی کہ ضرورت ہو تو ہمارے پنشنرز فوجی بھرتی کر کے لے جائو۔ اس رویئے کے بعد ہم روتے ہیں کہ ہم اپنے عرب دوستوں سے محروم ہو گئے۔ مگر ان کا جگرا بھی دیکھیں کہ انہوںنے آج کوئی بات نہیں جتلائی۔یہ تو میں کہہ رہا ہوں کہ ہماری پارلیمنٹ کی زبان بہت لمبی ہو گئی تھی۔ اورا س نے ملک کی خارجہ پالیسی ا ور دفاعی پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ یہ پالیسیاں پارلیمنٹ ہی بناتی ہے مگر ڈھول پیٹ کر نہیں، کمیٹیوں کے بند دروازوں اور فارن آفس کے بند کواڑوں کے پیچھے۔ سر عام اپنے دوستوں کی دھلائی نہیں کی جاتی جس میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ہماری یہ خواہش نیک ہے اور ممکنہ طور پر اخلاص پر مبنی کہ مسلم امہ آپس میں نہ جھگڑے۔ہم باہمی تفرقے کا شکار نہ ہوں۔ مگر نواز شریف نے ایران اورسعودی عرب کے ما بین صلح صفائی کی کوشش کر دیکھی ۔ کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل کو جو پروٹوکول دیا گیا،اس پر چشم فلک بھی شرمندہ شرمندہ تھی۔ اب عمران خان اس مشن کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ خدا کرے کہ وہ کامیاب ہوں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیںکہ عمران نے یہ بات شاہ سلمان سے بات کرنے کے بعد کی ہے۔ ضرور اس میں سچ ہو گا مگر ہم جو بیچ بچائو کرانے نکلے ہیں تو ہمیں ضرور سوچنا چایئے کہ مسئلہ اصل میں ہے کیا۔ عرب و عجم کی کشمکش صدیوں پرانی ہے۔ عجم تو عربوں کو بدو سمجھتا تھا مگر انہی بدووںنے عجم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اسلام قبول کر لینے کے بعد عجم کا فرض یہ تھا کہ باقی عالم اسلام کی طرح عربوں کی قیادت کو قبول کر لیتا کہ وہ فوجی طاقت میں بھی بڑے نکلے اور علم و فضل کے اعتبار سے بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا، عجم کے آتشکدے کبھی بجھتے نہیں تھے مگر عربوں کے روشن کردہ علم و فضل کے چراغوںنے ایک دنیا کو منور کیا۔ عجم کو قبل از اسلام کی عصبیت سے نکلنا ہو گا۔ اسلام کا مرکز اور منبع حرمین شریفین کی سر زمین ہے ۔
مگر ہم کیا چاک رفو کریں گے۔ او آئی سی لمبی تان کر سوئی ہوئی ہے۔ایکو یاا ٓر سی ڈی میں دم خم نظر نہیں آتا۔ایک خلیجی تعاون کونسل ہے جسے سعودی عرب متحرک کرنے میںکامیاب ہو گیا ہے۔
اس سیناریو میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ اس پر ہمیںغورو فکر کرنا چاہئے ، کوئی ہمیں یہ طعنہ نہیں دیتا کہ آپ کس باغ کی مولی ہیں۔ ظاہر ہے ہماری کوئی حیثیت ہے تو ہمارا ساتھ نبھایا جا رہا ہے مگر ہمیں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ہم نے جو عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے ، اس سے ہم جونا گڑ، مناوادر، حیدر آباد دکن اور کشمیر سے محروم ہوئے۔یمن میںمداخلت کو ہم نے گناہ سمجھ لیا۔ مگر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور پرنس محمد بن سلمان نے نہیں سوچا کہ پاکستان کی مدد کرنے سے ایران یا بھارت یا امریکہ اس سے ناراض ہو جائے گا۔ ہمیں بھی سعودی عرب کی طرح کسی دوسرے سے ڈرنے جھجکنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر ہم سعودیہ کے دوست ہیں اور ضرور ہیں تو پھر سعودیہ کی مدد سے کیوں جھجکتے ہیں۔ اور دبئی والوں کو کیوں طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو محض مچھیرے ہوا کرتے تھے۔پتہ نہیں ہمیں کہاں سے سر خاب کے پر لگ گئے ہیں کہ اونچی اڑانوں کے دوران نیچے دیکھتے ہی نہیں۔
پاکستانی قوم شاہ سلمان اور پرنس محمد بن سلمان کی خاص طور پر ممنون ہے جو خادم حرمین شریفین تو ہیں مگر عالم اسلام کے قلعہ پاکستان کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ہم سعودی عرب کو عالم ا سلام کی عقیدتوں کامرکز و محور سمجھتے ہیں اور ہر اسلامی ملک کی برابر کی عزت کرتے ہیں۔ اسلامی امہ میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ سارے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے
غمگسار اور ہمدرد۔
میرے پاس الفاظ نہیں جن کی مدد سے خادم حرمین شریفین کا شکریہ ادا کر سکوں، عربی میں لکھ رہا ہوتا تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتا مگر پھر بھی ہم ناچیز پاکستانیوں کی طرف سے سعودیہ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ کہ انہوں نے ہماری مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔ اور اب امید کرتا ہوں کی باقی دوست ممالک بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اورسعودیہ کی مثال پر عمل پیرا ہوں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024