وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کابل میں پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیاا ور پھر وہ اسلام آباد پہنچ گئے۔ یہاں ان کی حکومتی لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں اور فوجی حکام سے بھی مشاورت ہوئی۔ان ملاقاتوںمیں انہوںنے حقانی نیٹ و رک کے خلاف کاروائی پر زور دیا اور پاکستان سے کہا کہ وہ اپنی سرزمین پر ان دہشت گردوں کی سر کوبی کرے۔
پاک امریکہ تعلقات میں نیا فساد ڈو مور اور نو مور کے مشاعرے نے کھڑا کر دیا ہے۔امریکہ ڈو مور کے تقاضے سے پیچھے ہٹتا نظرنہیں آتا اور پاکستان نو مور کی گردان کئے چلے جا رہا ہے حالانکہ ہم نے آپریشن ردا لفساد شروع بھی کر رکھا ہے جو سال کے تین سو پینسٹھ دن جاری رہتا ہے اور کوئی لمحہ ایسانہیں گزرتا جب سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کا آمنا سامنا نہ ہو۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ہم ہر لمحے آپریشن پہ آپریشن کئے چلے جا رہے ہیں تو ڈو مور اور کیا بلاہے جس سے ہم انکاری ہیں۔ اگرتو مطلب یہ ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے گریز کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں امریکہ کو قائل کرنا پڑے گا کہ اس نیٹ ورک کا پاکستان میں وجود نہیں۔ یہ بات انٹیلی جنس رپورٹوں کی مدد سے ثابت کی جا سکتی ہے اور امریکہ کو یہ بھی باور کروایا جاسکتا ہے کہ ایک تو اس کی اور اتحادی افواج اس قدر نااہل اور نالائق ہیں کہ وہ پورے افغانستان کوکنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکیں۔، پندرہ سال کی لڑائی بڑی طویل ہوتی ہے، پاکستان اور بھارت تو چند روز میں ہف جاتے ہیں اور سیکورٹی کونسل کو سیز فائر کروانا پڑتی ہے۔ اب امریکی اور نیٹو افواج اگر افغانستان کی سرزمین کو فتح کرنے میںنا کام رہی ہیں تو یہ سب کو نظرا ٓ رہا ہے، پاکستان کے پاس بھی وہ تمام انٹیلی جنس ڈیٹا موجود ہے جو امریکیوں کے منہ پہ مارا جا سکتا ہے کہ حضرت! یہ رہا آپ کا کارنامہ!ملک ملک یلغار کا شوق لاحق ہے مگر لڑنا آتا نہیں ، صرف بمباری کرنا جانتے ہو، کروز داغتے ہو، ڈرون مارتے ہو اور خلق خدا کا ناحق خون بہاتے ہو۔ آج آپ کا مطالبہ ہے کہ افغانیوں کو پاکستان کی سرزمین پر ماریں، کل آپ کہیں گے کہ انہیں کابل اور قندھار جا کر مارو۔ یہ لڑائی آپ سے لڑی نہیں جاتی تھی تواس میں کودے کیوں تھے ۔ساتھ میں ہمیں بھی دہشت گردوں سے بھڑوا دیا۔
آج مشرف ملک میں نہیں ہے ورنہ وہ امریکیوں کو جواب دیتا اور پاکستانیوں کو بھی بتاتا کہ وہ ا س جنگ میں کیوںکودا تھا۔ امریکی جنگ میں کودنے سے پہلے اس نے کسی سے مشورہ تک نہیں کیا، آدھی رات کو ایک ٹیلی فون پر ڈھیر ہو گیاا ور کہتا تھا کہ میں کمانڈو ہوں۔ وہ ضرور کمانڈو تھا مگر اس نے امریکیوں کے ٹیلی فون کے سامنے سرنڈر ہو کر کمانڈو پن کی ہر گز لاج نہ رکھی اور پھر زرداری حکومت آ گئی جس نے امریکہ کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر یہ کہہ دیا کہ یہ جنگ تو ہماری اپنی ہے اس لئے کہا کہ اس میں ان کی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں۔جب آرمی پبلک اسکول کے نو نہال شہید ہوئے تو فوج نے اسے قوم اور ملک کی جنگ بنا دیا، دشمن اپنے مذموم عزائم میں مسلسل کامیاب ہو رہا تھا، اس کے ایجنٹ ہمارا خون بہا رہے تھے اور ہم اس جنگ کو اپنے گلے ڈال رہے تھے، اب تو اس میں گوڈے گوڈے دھنس چکے ہیں ، ا س سے نکلنا مشکل ہو رہا ہے، بہت مارا ماری کر چکے۔ اپنے افسر، جوان ا ور عوام بھی شہید کرواچکے ۔ یہ بھی کہہ چکے کہ ہم نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے مگر امریکہ ہمارے دعوے کو نہیں مانتا۔ وہ درمیان میں کوئی پخ تلاش کر لیتا ہے، اب وہ حقانی نیٹ ورک کا رونا روتا ہے، کل کو داعش کے پیچھے لگا دے گا، یہ داعش شام میں امریکی افواج اور امریکی کانگرس کی منظور کردہ مالی اور فوجی مدد سے لڑ رہی ہے، شام میں امریکہ، نیٹو اور داعش کا دشمن مشترک ہے ، کون جانے یہ حقانی نیٹ ورک کیا ہے، کہاں سے آیاہے، کس نے نازل کیا ہے، کیا یہ سوویت روس کو شکست دینے کے لئے امریکہ نے استعمال نہیں کیا، یہ سب امریکہ کے لاڈلے تھے۔ اسامہ بن لادن سمیت تمام جہادی لیڈرز وائٹ ہائوس میں صدر بش کے ساتھ چائے پی چکے، تو یہ امریکہ کے دشمن کیسے ہو گئے، بس امریکہ جس کو چاہتا ہے ، دشمن قرار دے ڈالتا ہے اور جس کو چاہے اپنا لاڈلابنا لیتا ہے۔
پاکستان امریکہ کے مطالبے مانتے مانتے تھک چکا، اس کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا، اس کی سڑکیں نیٹو سپلائی کے ٹرکوںنے ادھیڑ ٖڈالیںمگر امریکہ پھر بھی پاکستان سے خوش نہیں ، ہم اپنے ساٹھ ہز ار افراد شہید کروا بیٹھے، اور امریکہ کیا چاہتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا تو ہو۔ مگر کون پوچھے گا، نواز شریف کو ہم نے حکومت سے نکال دیا۔ عمران خان ایک زمانے میں ڈرون حملوں کے خلاف جلوس نکالتا تھا ، اب اس پر جنون طاری ہے کہ نواز شریف کی وکٹ تو اڑا دی، زرداری کی کیسے اڑائی جائے، کبھی وہ اسے گرفتاری کی دھمکیاں دیتا ہے، بھئی! کس برتے پر، اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک عمران کب سے بن گیا، کس نے بنایا، وہ کہتا تھا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، یہ انگلی تو اٹھی نہیں تو اس نے امور مملکت کا چارج کیسے سنبھال لیا۔ اپنے مخالفوں کو فیصلے سنانے کیسے شروع کر دیئے۔عمران نے تو جوتیوںمیں دال بانٹنے کی حد کر دی، دشمن ہماری جان کے در پے ہے، اس کے تقاضے ختم ہونے میں نہیں آتے اورعمران اپنے مخالفین پر حکم چلانے سے نہیں رکتا۔عمران نے ریاست کے اندر ریاست بنا لی ہے۔ تو امریکی وزیرخارجہ کو بھی وہی سنبھالے۔
افغانستان میں امریکہ اپنی مرضی سے ا ٓیا ہے، عراق میں بھی وہ اپنی مرضی سے گیا تھا۔ وہاں بھی اسے خاص کامیابی نہیں ہوئی، اگر عراق کی جنگ اس نے لڑی تو خود تھی اردن نے نہیں لڑی، سعودیہ نے نہیں لڑی۔ اسرائیل نے بھی نہیں لڑی۔ شام میں ویسے وہ ساری دنیا کو جھونکنے میں کامیاب ہو گیا ہے، روس بھی وہاں آ چکا ہے، سعودیہ بھی آ گیا اور ترکی نے بھی اسے اپنی درد سری بنا لیا ہے۔شاید امریکہ چاہتا ہے کہ افغان جنگ بھی پاکستان ہی نہیں ، ساری دنیا اس کو جیت کر تحفے میں دے دے۔۔ امریکہ ضرور سپر پاور ہے ، مگر وہ اپنی دھونس تو پاکستان پر نہیں جما سکتا۔پاکستان صرف اپنے علاقے میں انہی دہشت گردوں سے لڑ سکتا ہے ا ور لڑتا بھی رہاہے جو اس سے لڑ رہے ہیں لیکن جو شخص اس کے لئے مسئلہ نہیں بنا اور نہ پاک سرزمین پر اس کا کوئی وجود ہے تو پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کو افغانستان میں جا کر محض اس لئے مارے کہ امریکہ کہتا ہے کہ وہ اس کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ امریکہ کو اپنے مسئلے سے خود ہی نبٹنا چاہئے۔ خواہ مخواہ پاکستان کے لئے نت نئے مصائب کھڑے نہ کرے، پاکستان نے وارا ٓن ٹیرر کو بہت بھگت لیا۔ اسی خطے میں ایران ہے، بھارت ہے، وسط ایشیا کے سارے ممالک ہیں ، اگر امریکہ کا ان سے کوئی تقاضہ نہیں تو پاکستان سے کیوں ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024