سیاست میں چھوٹی برائی، بڑی برائی کا فلسفہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی امارت کے دوران متعارف کرایاتھا۔ اس فلسفے کی بنیاد پر جماعت اسلامی نے بڑی برائی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی کا حصہ بن گئی۔ غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں فتح یاب ہو کر تاج میاں نواز شریف کے سر پر سجایاگیا۔ اگلے انتخابات میں قاضی صاحب نے شاید مسلم لےگ اور پیپلز پارٹی کو برابر کی برائی سمجھ لیا اور دونوں کے مقابلے میں آگئی۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا نعرہ ظالمو! قاضی آ رہا ہے بڑاپاپولر ہوا مگر جماعت اسلامی کو پذیرائی نہ مل سکی۔ قاضی صاحب نے اپنی صوابدید پر پیپلز پارٹی کو بڑی، مسلم لیگ ن کو چھوٹی برائی قرار دیا تھا۔ اگلے الیکشن میں سولو فلائٹ میں جماعت تین میں تھی نہ تیرہ میں۔ اگر 90 کے انتخابات میں پاکستانیوں نے قاضی کے فلسفے چھوٹی بڑی برائی پر لبیک کہہ کر پیپلز پارٹی کو مسترد اور مسلم لےگ کے گرد جمع جماعتوں کو منتخب کیا تو 93ءکے انتخابات میں جماعت اسلامی پوری قوت لگانے کے باوجود ہار گئی۔ گویا ووٹروں کی اکثریت نے اس فلسفے کے موجد پارٹی ہی کو بڑی برائی سمجھ لیا۔ سیاست میں چھوٹی برائی بڑی برائی کا فلسفہ تو در آیا،سوال یہ ہے کہ چھوٹی اور بڑی برائی کا تعین آخر کس نے کرنا ہے؟ ہر شخص اس کا تعین حالات کو پرکھ کر کرتا ہے۔ 90ءکے الیکشن میں جب یہ فلسفہ ایجاد ہوا تو پیپلز پارٹی کا دور قوم نے دیکھ لیا تھا۔ اس دور میں زرداری صاحب کو مسٹر ٹن پرسنٹ کا خطاب ملا۔ صدر اسحق خان نے پیپلز پارٹی کا دھڑن تختہ کیا تو آصف علی زرداری کی برطانوی بنکار مرتضیٰ بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر 8 لاکھ ڈالرنکلوانے کے الزام میں گرفتاری ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے 88 سے نوے کے دور میں بھی کرپشن کی داستانیں عام تھیں۔ عوام کے سامنے سیاسی تصویر کا یہ ایک رخ تھا۔ پیپلز پارٹی کے بدنام دور کے مقابلے میں مسلم لےگ نیک نام تھی۔ محمد خان جونیجو کا دور واقعی شرافت دور تھا لیکن 90 کے انتخابات کے بعد مسلم لےگ ن کی نواز لیگ کے نام سے نئی قیادت سامنے آئی تواگلے الیکشن میں عوام کے سامنے سیاست کے دونوں رخ آگئے۔ اس میں اگر قوم نے قاضی حسین احمد کے فلسفے کو مدنظر رکھ کر ووٹ دیئے تو مسلم لےگ ن بڑی اور پیپلز پارٹی چھوٹی برائی تھی ۔
اقتدار سے باہر کی سیاسی قیادتوں کی اہلیت صلاحیت اور اخلاص کا فیصلہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ ق لیگ نے اقتدار پر مشرف کی گرفت تھوڑی سے ڈھیلی دیکھی تو وسائل اجاڑ دیئے۔ 2008ءکے انتخابات میںعوام کو آصف علی زرداری کی صورت میں مسیحا نظر آیا۔ قوم ٹن پرسنٹ اور ہندرڈ پرسنٹ کی داستانیں نظر انداز کر گئے۔ یقین کر لیا کہ انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے۔ ان انتخابات میں قوم نے ق لیگ کو بڑی اسکے مقابلے میں ن لیگ کو چھوٹی اور پیپلز پارٹی کو نواز لیگ سے بھی چھوٹی برائی سمجھ کر اس پراعتماد کا اظہار کیا۔ پھر اس اعتماد کا آصف علی زرداری کی قیادت میں جو حشر ہوااسکی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ 2013ءکے انتخابات میں قوم کے سامنے عمران خان کی صورت میں تیسرا آپشن بھی تھا۔ پانچ سالہ دور میں پیپلز پارٹی اتنی بڑی برائی بن گئی کہ اسکے مقابلے میں ن لیگ ووٹرز کو پارسا نظر آنے لگی ۔ آج اپنی پالیسیوں کے باعث مسلم لےگ ن اسی مقام پر ہے جس پر 2013ءکے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی تھی۔آج دونوں برابر کی برائی اور اچھائی کی حامل ہیں ۔2013ءکے انتخابات میں قوم نے عمران خان کو اقتدار میں لانے سے گریز کیا۔ وہ مسلم لےگ ن کی قیادت سے توقع رکھتی تھی کہ اس نے بارہ تیرہ سال میں بہت گرم سرد دیکھ لیا۔ وہ اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک و قوم کی تقدیر بدل دےگی۔ بدقسمتی سے اس نے پورا زور اپنی اور اپنے عزیزوں کی قسمت بدلنے پر لگا دیا۔ بادی النظر میں مسلم لےگ ن اور پیپلز پارٹی میںاچھائی اور برائی کے موازنے میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ انکے مقابلے میں عوام کے پاس آج عمران خان اور طاہر القادری کی صورت میں تیسرا اور چوتھا آپشن بھی موجود ہے۔
پارسائی کی آزمائش اقتدار میں آکر ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے گدی نشین اور علمائے کرام اقتدار میں آ کر بدنام ہو کر بے نام ہو گئے۔ میڈیا کے پراپیگنڈے کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو عمران خان کی صلاحیتیں خیبر پختونخواہ میں نمایاں ہوئی ہیں۔ وہاں ہر طرف بُرا ہی بُرا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران تمام صوبوں کو ہدایت کی کہ ”خیبر پی کے کی طرز پر آئی ایم ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) بنا کر تمام ڈیٹا اس پر لوڈ کیا جائے، کے پی کے نے رول ماڈل بنا دیا‘ اسے فالو کیا جائے۔ عدالت ہر جگہ ترقیاتی کاموں کا جائزہ نہیں لے سکتی۔“
کچھ لوگوں کی نظر میں تحریک انصاف بھی، پیپلز پارٹی اور مسلم لےگ ن کی طرح برائی ہے۔ یہ ہر کسی کی اپنی صوابدیدہ ہے کہ وہ کس کو چھوٹی کس کو بڑی اور کس کو بہت بڑی برائی سمجھے ۔ پی پی پی اور نواز لیگ کو عوام نے مکمل اور کئی بار اقتدار میں دیکھ لیا۔ عمران خان کی بھی کسی حد تک کارکردگی سامنے ہے۔ طاہرالقادری کی آزمائش ابھی ہونی ہے۔ انکے فرامین ہی قوم کیلئے ان کو ”اچھائی کی مثال“ قرار دینے کیلئے کافی ہیں۔ ان کی عوامی تحریک نے اگلے ماہ بھکر میں ہونیوالے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر انکے امیدوار کی ضمانت ضبط نہ ہوئی تو سمجھ لیں آئندہ عام انتخابات میں قوم انکے بھی اچھائی اور برائی کے معیار کا جائزہ لے گی۔ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری خود کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اپنے کردار اور قول و فعل سے ایسا ثابت کر چکے ہیں کہ ان کو اقتدار میں لا کر آزمانے کی مزید ضرورت نہیں رہی۔ وہ اپنے تحت الشعور کی آواز کو الہام سمجھ لیتے ہیں جس سے ابہام ہی ابہام جنم لیتے ہیں۔ اگلا الیکشن چھوٹی برائی، بڑی برائی اور سب سے بڑی برائی کے مابین ہو سکتا ہے۔ ہر کسی نے اپنی صوابدیدہ برائی کا تعین کرنا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کوئی ایک ایسا ہوتا جس کے بارے میں کہا جاتا کہ یہی ایک اچھائی ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی مسلم لےگ ن اور تحریک انصاف کو لوگ اپنی اپنی صوابدیدہ پر اچھائی قرار دیتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024