’جوائے لینڈ‘ کا تنازع
ٹرانس جینڈر ایک متنازعہ مسئلہ تو بنا ہی ہوا ہے، اس پر اسی موضوع پر بننے والی فلم جوائے لینڈ نے تہلکہ ہی مچا دیا۔ مسئلہ اور پیچیدہ اور گھمبیر صورت حال اختیار کرگیا، فلم میں کچھ سین اور جملوں کو سینسر بورڈنے منظور نہ کیا تو انہیں فلم سے خارج کرنا پڑا، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، وزیراعظم نے ذاتی طور پر اس کا نوٹس لیا اور ایک کمیٹی اس سلسلہ میں تشکیل دی ہے اس ہائی پاور ڈکمیٹی کا یہی مقصدہے کہ مذکورہ فلم پر کھل کر بحث ہوگی اور لوگوں کے ذہنوں میں جو سوالات سرا±ٹھا رہے ہیں اس کے جواب دئیے جاسکیں گے۔ متنازعہ بننے والی کتب ہوں یا فلمیں وہ دیکھے جانے سے قبل ہی زیادہ شہرت حاصل کرلیتی ہیں۔یہی جوائے لینڈ کے ساتھ ہوا ہے۔ لوگوں میں ایک تجسس پیدا ہوگیا ہے کہ آخر دیکھیں تو سہی اس فلم میں ہے کیا؟ سچ پوچھیں تو پہلے کالم کی طرح اب بھی میں اس فلم اور اس موضوع کے حق میں ہرگزنہیں ہوں۔ اس موضوع سے میرا اختلاف تھا اور رہے گا، پھر چاہے اس کے حق میں کیسی بھی دلیلیں تاویلیں دی جائیں۔ مجھے حیرت ہوئی جب ایک صاحب نے یہ لکھا کہ میں اس فلم کو پروموٹ تو نہیں کر رہا اور نہ ہی اس کے بین ہونے پر اعتراض کر رہا ہوں لیکن دلیل یہ دی کہ جب ہمارے گھروں میں ایک طویل عرصہ تک ہندی ڈرامے دیکھے گئے تو کیا ہم نے مذہب بدل لیا۔ ہماری شادیوں پرٹرانس جینڈر ز کی مہینوں پہلے بھاری رقوم ادا کرکے بکنگ کروائی جاتی ہے تو کیا ہمارے لوگوں نے ٹرانس جینڈر کا روپ دھارا ہے؟ عجیب فضول ، بے تکی اور حقائق سے دور دلائل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج ہم میں سے اکثریت اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ہندی کلچر اور ڈراموں نے ہماری زندگیوں پر کتنے منفی اثرات مرتب کئے تھے۔ ہر گھر سے جب بھجن کی آوازیں گونجناشروع ہوئیں تو وہی بھجن ہمارے بچوں کی زبانوں پر بھی تھے۔ ساس بہو کی لڑائیوں اور سازشوں نے لاشعوری طور پر اس کے اثرات کو قبول کرلیا، کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہمارے بچوں نے اپنی بول چال میں ہندی الفاظ کو کثرت سے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ میڈیا ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے۔ جہاں سے آپ لوگوں کے ذہنوں کو مکمل بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پھر خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو، سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا، سب اپنی جگہ پاورفل کردار ادا کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ باقی رہی بات کہ شادیوں پر مدعو کرنے سے ہم میں سے کتنوں نے ٹرانس جینڈرز کا روپ دھا رلیا ہے؟ تو جناب ادھر ٹرانس جینڈر کا مسئلہ کھڑا ہی ہوا تھا کہ جگہ جگہ اس سے متاثر کئی لوگ آپ کو پارکوں اور سڑکوں پر بھاری میک اپ اور زنانہ لباس میں نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ میں ٹرانس جینڈر کی اس قسم کا ذکر نہیں کر رہی جو پیدائشی طور پر فطری ٹرانس جینڈرز ہیں، یہ ایک مظلوم طبقہ ہے اس کے حقوق کے لئے لوگ بات بھی کرتے ہیں اور کام بھی کررہے ہیں۔ اصل میں انہیں کوئی مناسب روزگار فراہم کیا جاتا، معاشرے میں معاشی طور پر بحیثیت انسان ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا تو شادی بیاہ میں ناچ گاناان کی مجبوری نہ بنتا۔ لیکن یہ ہم ہی تھے جنہوں نے ان کو اپنی تماش بینی کیلئے استعمال کیا۔ اس کے اثرات بھی معاشرے نے کئے، جب ان کے ٹھمکوں کے ساتھ ہمارے نام نہاد مرد نشے میں دھت جھومتے نظرآتے ہیں۔ جب ہم کسی انسان کا غیر متوقع روپ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کتنا بدل گیا ہے۔ حالانکہ کوئی انسان بدلتا نہیں ہے وہ اپنے اندر کی اصلیت کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ جو اس نے معاشرے سے پوشیدہ رکھی ہوتی ہے تاکہ اسے مہذب سمجھا جائے۔ اس طرح کی تقریبات میں ان کے مہذب ہونے کا سارا راز فاش ہوجاتا ہے۔ جگہ جگہ کھلے ہوئے سیلون جہاں باقاعدہ فیشل اور میک اپ کا سارا سامان موجود ہوتا ہے اور ہمارے مرد عورتوں کی طرح میک اپ کرواتے پائے جاتے ہیں۔ یہ آخر کس بات کا اثر ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈر نے ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کیں تو لاکھوں میں ویورز حاصل کرلئے۔ یہ ویورز آخر کون ہیں؟ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کیا بننا چاہتے ہیں اس کا اندازہ اکثریت کے ذہنی رجحان سے لگا کر دیکھئے آپ کو اچھی طرح سے اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارا معاشرہ یہ اثرات قبول کر رہا ہے یا نہیں؟ اگر ہم صرف انٹرٹینمنٹ کے لئے سب دیکھتے ہیں تو جناب انٹرنیٹ پر انٹرٹینمنٹ کا بہت سا مواد دستیاب ہے تو کیا ہم خود اور اپنے بچوں کو ہرطرح کی انٹرٹینمنٹ کی اجازت اس لئے دے دیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہر گز نہیں یہ سوچ بہت منفی ہے اور پروپیگنڈہ کو ہوا دینے والی ہے۔ جہاں تک یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا کبھی اردگرد کچھ غلط ہونے پر کسی نے آواز اٹھائی؟، جواب عرض ہے کہ بالکل اٹھائی، ہر غلط بات اور نظرئیے پر بطور صحافی اپنا فرض سمجھتے ہوئے میں آواز اٹھاتی ہوں۔ میرے جیسے اور مجھ سے زیادہ حساس بے شمار صحافی ہر پلیٹ فارم پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ہمارے عوام اب باشعور ہیں وہ بولتے ہیں۔ جوائے لینڈ کے پروڈیوسرز کی لسٹ دیکھ کر آپ خود حیران رہ جائیں گے یہ ایک نہیں کئی پروڈیوسرز کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس میں ملکی و غیر ملکی افراد شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ سرمد کھوسٹ کے علاوہ یہ تمام غیر ملکی معروف پروڈیوسرز آخر اس چھوٹی سی پنجابی فلم کے لئے کیوں یکجا ہوگئے اور ان کا آخر مقصد کیا تھا؟ اور حسب معمول اس کارخیر میں ملالہ یوسف زئی نے بھی اپنا حصہ ثواب سمجھ کر ڈالا ہے۔ یہ محض ٹرانس جینڈر کا موضوع اور مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس میں Queerکو ڈیفائن کیا گیا ہے یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے جسمانی روپ سے مطمئن نہیں ہوتا۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ ٹرانس جینڈرز ایک مظلوم طبقہ ہے۔ ہم ان میں اورQueerمیں فرق نہیں کر پارہے۔ یہ فلم پاکستانی اور مسلم معاشرے کے بالکل متضاد بنائی گئی ہے۔ اس وجہ سے اسے کانز فلم فیسٹول سے کوئیرپام ایوارڈ بھی ملا ہے۔ اور یہ ایوارڈ صرفایل جی بی ٹی فلموں کو ہی دیا جاتا ہے۔ یہ بڑے کاز کی مین سٹریم فلم نہیں ہے۔