ہم کس کو خوش کر رہے ہیں ؟
پاکستان جو ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا جو اِس کرہ ارض کے سچے مذہب اسلام، اور اُس کے نظریے پر بنا تھا۔ جس کی بنیاد ہے لا الہ الا اللہ ہے ۔لا الہ الا اللہ کا مطلب اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں تو اُن احکامات کا عملی نمونہ آنحضورﷺ کی زندگی ہمارے لئے سنت ِ نبوی اور اسوہ ¿ حسنہ بن گئی ۔جب ِ برصغیر پاک و ہند میں کے حصولِ پاکستان کے لئے تحریک چل رہی تھی تو برصغیر پاک و ہند کے طول و ارض پر ایک نعرہ ہر مسلمان کی زبان سے نکل کر فضا میں گونجتا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ یعنی لا الہ الا اللہ اسلام کی بنیاد ہے تو یہی الفاظ قیام ِ پاکستان کی بنیاد بنے ۔
آج ہر کوئی پچھلے75 سالوںکی روداد دُہرانے لگا ہوا ہے ،اور ہم آج اُس موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیںکہ لا الہ الا اللہ کے فلسفے کو فراموش کرکے ہر اُس غلط راستے پر چل نکلے کہ آج ہمارے پیچھے کی غلطیاں اور کوہتائیاں چیخ چیخ کرہر طرف دُہائی مچا رہی ہےں ،شور برپا کیا ہوا ہے، بے چینی ، اضطراب کی کیفیت ہر ُسوہے،ہر کوئی مایوس اور غمگین ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں پاکستان کی سا لمیت اور معیشت ہر دور میں خطرے میںرہی ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں ہر اُس کام کو تقویت ملی جو لا الہ الا اللہ کے فلسفے کی نفی کرتا رہا ہے ،اوروہی کام اورمفادات اِس ملک ، ملک کے اداروںاور اِس کے عوام کے لئے زہر قاتل بنے رہے ہیں اور ہمارے اُن دنیاوی آقاو¿ں کے فائدے میں بہترین ثابت ہو تا رہا ہے ۔ بیرونی قوتوں نے ہمیشہ سے ہی پاکستان کی لائف لائن یعنی پاکستانی معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے ۔ ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف یا دوسرے مالیاتی بین الاقوامی ادارے سب نے بُری طرح پاکستان کے مالیاتی معاملات کو جکڑ رکھا ہے۔ قرضے قرضے قرضے ، امداد ، امداد ،امداد کے کھیل میں اب ہم ایک خوددار قوم بننے کی بجائے بھکاری کے طور پر دنیا میں جانے جاتے ہیں۔آج صورت ِ حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہربچہ بھی مقروض پیدا ہوتا ہے اور آنے والی نسلیں مقروض ہی پیدا ہوں گی۔اسلامی نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے اوروہ قرض دار ہو تو اُس مرنے والے کے ورثا پر فرض ہوتا ہے کہ جنازہ اُٹھانے سے پہلے لیا گیا قرض چُکا دیا جائے، اب جب تمام پا کستانی ہی بھاری بھر کم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں تو قومی قرضوں کا بوجھ مرنے والوں کی میت پر کتنا بھاری رہے گا؟ اِسکا جواب تو سیاسی مذہبی شخصیات ہی دے سکتی ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے لیکن ہم نے اپنے لئے دنیاوی آقا بنا لئے ہیں جن کا ڈر ، خوف اور ڈنڈا اپنے اوپر حاوی کر لیتے ہیںجنہوں نے یہاں ہر اُس بُرے کام کو پروان چڑھایا جو ایک مہذب معاشرے میں جُرم اور بُرائی میں تصور شمار ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اُس بُرائی کو ہی عزت ہے جو قانون اور تہذیب سے بالا تر ہو کر کی جاتی ہے۔یہاں ہر جُرم کے لئے سزا ہے پر اُس سزا پر عمل نہیں،گناہ اور ثواب کے درس توبہت ہیں مگر اُن پر عمل نہیں، حج عمرے پر جانے کی فضیلت تو ہے لیکن جھوٹ فریب سے توبہ نہیں، پھر ہم کہاں کے مسلمان ہیں؟اور کہاں کے لا الہ الا اللہ کے پیروکار؟اگر اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو ہم انسانیت کی تنزلی کے اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ظلم و ستم کو سلام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں پر اپنا کرم رکھا ہے کہ ہم کرہ ارض کی مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق ہیں، دوسرا مسلمان اور تیسرا پاکستان جیسا اسلامی نظریاتی ملک ہمیں دیا مگر ہم کسی ایک کے معیار پر پورا نہیں اترتے ۔ چور بازاری ، کینہ پروری، لوٹ کھسوٹ، کرپشن کے ہر درجے پرہم پورا اترتے نظر آتے ہیں ۔اِن سب کی جو بھی وجوہات ہیں اُن میںسب سے اہم وجہ قانون کی عملداری کا فقدان ہے جس نے ہمیں قوم بننے نہیں دیا بلکہ ہم قانون شکنی پر اپنے آپ کو بڑافخریہ انداز میں تصور کرتے ہیں۔
قومی سطح کے آقاو¿ں کی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی ہم نے اپنے آقا مقرر کر رکھے ہیں جن کی ناراضی کاڈرہر وقت رہتاہے جس وجہ سے ہم دنیا کے سامنے اپنا ایک الگ تشخص نہیں بنا سکے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے ہر جگہ ہر قدم ہر مقام پر دنیا بھر میں ہمیں زچ کرنے کا کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتا جہاں پاکستان کو ناکام کرنے کی کوشش کو ہاتھ سے جانے دے ۔اور جب بھارت کہیں بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ بھارتی لابی کام کر گئی تو پھرپاکستان حق پر ہوتے ہوئے بھی وہاں ہماری لابی کامیاب کیوں نہیں ہوتی ؟ یعنی ہمارے ہی لوگ اپنی کارکردگی نہ دکھا کر بھارت کو خوش کر جاتے ہیں؟یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کوخوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اپنی خوشیوں کو پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ہمارے ہاں صرف عوام کے لئے صرف خطرات تیار رہتے ہیں کبھی ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ، کبھی سا لمیت خطرے میں، کبھی حکومت خطرے میں ، کبھی امن وامان خطرے میں ،توایمان بھی فرقوں اور انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھنے جیسے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ اِن سب خطرات میں بھی دوسروں کے مفادات اور خوشیاں چھپی ہیں ۔یعنی ہمیں دوسروں کی خوشیاں عزیز ہیں اپنی خوشیوں کو دوسروں پر قربان کرکے۔پس آخر میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان کی ناکامی کی وجہ ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے ہم دنیاوی آقاوں کوخوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔