ابھینند ن سے سنتوش بابو تک…بھارتی جھوٹ بے نقاب
صرف اسی ایک بات ے بھارتی فوج کو دیے گئے اعزازت کی حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے ۔دوسری جانب23نومبر کو بھارتی صدر اورمودی کی موجودگی میں خصوصی تقریب کا اہتمام ہوا جس میں بھارتی صدر نے ڈیڑھ سال پہلے چین کے ہاتھوں مارے گئے بھارتی فوج کی ’بہار ‘رجمنٹ کے کرنل ’سنتوش بابو‘ کو مہا ویر چکر دیا جبکہ دیگر چار ہندوستانی فوجیوں کو ویر چکر دیا۔انڈین فوج کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق کرنل سنتوش اور اُس کے ساتھیوں نے چین کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں بڑی دلیری دکھائی تھی اسی وجہ سے انہیں بہادری کے یہ تمغے دیے گئے ہیں۔راقم چوں کہ بھارت کی داخلی سیاست کا عمومی طالب علم ہے اس لیے اس تناظر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ خود ہندوستان کے سنجیدہ حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ درحقیقت ڈیڑھ سال قبل بھارتی فوج نے لداخ (گلوان )کے مقام پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔اسی تناظر میں انڈین فوج کے 20فوجی اپنے کمانڈر سمیت چین کے ہاتھوں مارے گئے تھے مگر ہندوستان نے اپنے روایتی جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اور اپنے فوجیوں کے گرتے ہوئے مورال کو بہتر کرنے کے لئے انہیں تمغوں سے نواز دیا۔
مبصرین کے مطابق بھارت کی یہ روش کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس نام نہاد ڈرامے سے ایک دن پہلے بھی اپنے بھگوڑے افسر ابھی نندن کو ویر چکر سے نوازا تھا جس پر بجا طور پر پورے عالمی میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان انڈیا کے اس دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کرتا ہے کہ فروری 2019 میں (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر میں گرفتاری سے قبل انڈین پائلٹ نے ایک پاکستانی ایف سولہ طیارہ مار گرایا تھا۔
‘پاک دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’انڈین پائلٹ کو اعزاز دیتے وقت پڑھا جانے والا تعارف انڈین جعلسازی کی جیتی جاگتی مثال ہے جس کا مقصد اپنے عوام کوبے وقوف بنانا اور اپنی ہزیمت و رسوائی کو چھپانا ہے۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی ایف 16 کی تعداد دیکھنے کے بعد عالمی ماہرین اور امریکی حکام پہلے ہی یہ تصدیق کر چکے ہیں اس روز پاکستان کا کوئی ایف 16 نہیں گرا تھا۔ مبصرین کے مطابق پوری طرح سے پہلے ہی بے نقاب ہو جانے والے ایک جھوٹ کو پھیلانے پر انڈیا بضد ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے اور خیالی کارنامے پر بہادری کا فوجی اعزاز دینا فوجی اقدار کے ہر معیار کے منافی ہے۔ درحقیقت بعد میں آنے والے خیال کے تحت یہ اعزاز دے کر انڈیا نے خود اپنا مذاق اڑایا ہے۔‘امریکی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ امریکی حکام نے پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی گنتی کی جو کہ تعداد میں پورے ہیں.پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 27 فروری 2019 کو پاکستانی فضائیہ نے دن کے اجالے میں دو انڈین طیارے مار گرائے تھے جن میں ایک بھارتی ’مِگ۔21‘ بائیسن طیارہ تھا جو (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر میں گرا تھا۔’طیارے سے باہر چھلانگ لگانے والے پائلٹ کو پاکستان نے گرفتار کر لیا تھا اور بعدازاں خیرسگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا تھا۔ پاکستان کی فضائیہ نے دوسرا انڈین طیارہ ’ایس یو 30‘ مار گرایا تھا جو ’ایل او سی‘ کی دوسری طرف جا کر گرا تھا۔ واضح ہو کہ اسی روز افراتفری میں انڈین فوج نے سرینگر کے قریب اپنا ہی ’ایم آئی 17‘ ہیلی کاپٹر مار گرایا تھا جس کے بارے میں ابتدا میں انڈیا نے انکار کیا لیکن بعد میں تسلیم کر لیا تھا۔۔۔‘پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ’عالمی برادری کے سامنے انڈیا کی اس من گھڑت کہانی کی کوئی ساکھ نہیں اور فروری 2019 طرز کے ہر طرح کے بھارتی جنگی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان پُرعزم اور تیار ہے۔ راقم کی رائے میں پا کستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے کے ناکام مہم جوئی کی غلطی سے انڈیا کو سبق سیکھنا چاہیے اور مستقبل میں ایسی کسی مہم جوئی سے باز رہنا چاہیے۔واضح رہے کہ دو سال قبل فروری 26 کو انڈیا نے پاکستانی علاقے بالاکوٹ میں بم گرائے تھے جس پر ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جہادی گروپس کے کیمپس پر حملہ تھا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ یہ حملے نہ تو کسی کیمپ پر تھے اور نہ ہی اُن میں کوئی ہلاک ہوا۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ اگلے ہی روز پاکستانی فضائیہ کی ایک جوابی کارروائی کے دوران انڈین مگ 21 اڑانے والے ابھینندن ورتھمان کے جہاز کو نشانہ بنا کر گرا دیا گیا تھا اور ابھینندن کو پاکستانی حدود سے گرفتار کر لیا گیا تھا جہاں وہ 60 گھنٹے تک قید میں رہا۔ ابھینندن کو اعزاز دیے جانے کی تقریب کے بعد ایک بار پھر اس بحث کا آغاز بھی ہو گیا جس میں پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا صارفین نے اپنے اپنے ریاستی موقف کی حمایت میں دلائل دینے شروع کر رکھے ہیں۔ اسی سلسلے میں انڈیا میں سوشل میڈیا صارفین نے پائلٹ ابھینندن کی ’جرات اور بہادری‘ کو سراہتے ہوئے داد دی تو پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے اس ’اعزاز کی حقیقت پوری طرح کھول کر رکھ دی ۔‘ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ٹویٹر پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ آج ایک انڈین پائلٹ کو ایک ایسا طیارہ گرانے پر فوجی اعزاز سے نوازا گیا جس سے متلعق امریکی حکام واضح کر چکے ہیں کہ ایسا ہوا ہی نہیں۔کچھ مبصرین نے ا س ضمن میں یہ بھی کہا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ابھی نندن کو رہا کرنے میںجلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جا تا ۔اگر ایساہوتا تو یوں ہم بہت سی غیر ضروری وضاحتوں سے بچ جا تے۔