دیارِ غیر میں پاکستان کے حقیقی سفیر
قیام پاکستان کے چند برس بعد ہی پاکستان کو اندرونی وبیرونی طور پر ایسے مسائل کا سامنا رہا کہ عالمی طاقتوں نے اس کا خوب فائدہ اٹھا یا اور کبھی دیرینہ دشمن بھارت کبھی گرم پانیوں کے متلاشی روس کی جارحانہ پیش قدمی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ریاست کو مجبورا ایسی پالیسیاں اختیار کرنا پڑیں کہ ہمیں کئی دہائیوں تک حالت جنگ میں رہنا پڑا کبھی دہشت گردوں نے ملک کے طول و عرض میں ہمارے معصوم ونہتے شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا اور ان وجوہات نے پاکستان کو عالمی سطح پر ہمارے تشخص کو مجروح کیا اسی لیے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو وطن عزیز سے دور رہ کر باعزت روزگار کمانے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ عالمی طاقتوں کی بدولت پاکستان کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا البتہ خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
حال ہی میں اوور سیز پاکستا نیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے جو یقینی طور پر قابل ستائش ہے کیونکہ وطن سے دور پردیس میں غیر ملکیوں کی جانب سے وطن عزیز کے مجروح تشخص کی بنیاد پر انہیں جو نشتر چبھوئے جاتے ہیں انہی کا حوصلہ ہے کہ یہ لوگ برداشت کرتے ہیں اور اسکے باوجود وطن عزیز کی ترقی میں کردار ادا کررہے ہیں یہاں ہم ذکر کرنے جارہے ہیں ایک ایسی خاتون کا جس کا پاکستان کے شہر منڈی بہائوالدین سے تعلق ہے اور یہ خاتون جس کا نام تبسم اسد ہے 5 سال کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ فرانس چلی گئی تھی وہاں پر رہائش اور تعلیم کے دوران انہیں تعصب پسندی کا سامنا رہا اور جب انہوں نے فرانس میں سی ایس ایس طرز کے مقابلے کے امتحان میں پانچویں پوزیشن حاصل کی تو اہل فرانس نے انہیں اپنی مرضی کی ملازمت کا موقع دیا اس امتحان کی خوبی یہ تھی کہ اس میں 3 ہزار کے قریب طالبعلموں نے حصہ لیا تھا اور 120 طالبعلم کامیاب ہوئے تھے جن میں پانچویں نمبر پر تبسم اسد نے پوزیشن حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ اسطرح تبسم اسد نے فرانس کی ڈیفنس منسٹری میں جاب حاصل کرلی اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اسے مسترد کردیا گیا اور کوشش کی جاتی رہی کہ تبسم اسد کو کسی ایسی جگہ پر پوسٹنگ نہ دی جائے جہاں پر حساس نوعیت کی دستاویز ہو سکتی ہیں لیکن تبسم اسد نے چٹان کے حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعصب پسندی کو اگنور کیا اور آگے بڑھتی رہیں اس دوران دس برس گزر گئے اور تبسم اسد ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے ملازمت کرتی رہیں تاہم انہیں اپنے سینئرز و جونیئرز کی طرف سے گاہے بگاہے تند وتیز جملوں تحقیر آمیز رویوں کا سامنا بھی رہا لیکن وہ خندہ پیشانی سے سب برداشت کرتی رہیں۔
دس برس بیت گئے تبسم اسد لوگو ں کے نہ صرف تند و تیز جملوں کا سامنا کرتی رہیں بلکہ اس پر گاہے بگاہے شک بھی کیا جاتا رہا آخر دس سال کے بعد فرانس کی ڈیفنس منسٹری میں سالانہ تقریب کے لیے تیاری کی جارہی تھی تو تبسم اسد سے بھی تجویز طلب کی گئی کہ تقریب کا موضوع کیا ہونا چاہیے تو تبسم اسد جو پاکستان کی بیٹی ہیں انہوں نے فوری طور پر اس موقع پر پاکستان کی تہذیب متعارف کرانے کی تجویز دیدی جسے منظور بھی کرلیا گیا۔ بس اب تبسم اسد نے تیاری شروع کردی اور ہر پاکستانی سے اس بارے میں مدد طلب کی تجاویز مانگ لیں اور فرانس میں پاکستان کے سفارت خانے کو بھی اس اہم ایونٹ پر نظریہ پاکستان اور تہذیب نمایاں کرنے کیلیئے کام کا آغاز کیا اور دن رات مسلسل کام کرتی رہیں اس دوران ان کا جوش و لولہ ناقابل تحریر ہے کیو نکہ وہ اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے جب فرانسیسی سالانہ تقریب میں پاکستان کی تہذیب وتمدن اور نظریہ پاکستان سے آشنا ہوئے تو وہ تبسم اسد کو داد دینے کے لیے بے اختیار تالیاں بجاتے ہوئے سفید وسبز پرچم کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔
اس روز فرانس کے سفارتکار سرکاری وفوجی افسران پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے تھے جو تبسم اسد کی بہت بڑی کامیابی تھی تبسم اسد نے اس روز پاکستان کا حقیقی چہرہ جو ایک پرامن ملک کی حیثیت سے دنیا میں ایک خود مختار و خوشحال مملکت کا خواہاں ہے دکھایا نظریہ پاکستان کی روح اور اسلام سے اہل فرانس کو روشناس کیا تو پاکستان کا حقیقی تشخص دیکھ کر اہل فرانس کو احساس ہوا کہ پاکستان ایک عظیم مملکت اور مسلمان پرامن قوم ہیں قارئین تبسم اسد ہو یا ملالہ یوسفزئی پاکستان کی بیٹیاں دیار غیر میں مملکت خداداد کا روشن و مثبت تشخص اجاگر کرنے میں مصروف عمل ہیں اسی طرح ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے جے وی چک 130 سے تعلق رکھنے والے ایک متوسط گھرانے کے ندیم موٹا ہیں۔ جو روزگار کی تلاش میں تیس سال قبل یورپ چلے گئے تھے۔
………………… …(جاری)