پاکستان کا پہلا عدالتی انقلاب لیکن تحریک ردِ انقلاب
معزز قارئین ! 31 دسمبر 2016ء سے 17 جنوری 2019ء تک میاں ثاقب نثار صاحب چیف جسٹس آف پاکستان ،28 جولائی2017ء کوسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت وزیراعظم میاں نواز شریف کو صادقؔ اور امین ؔ نہ (ہونے ) پر تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔ اِ س پر 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ سلام!۔ ’’ عدالتی انقلاب ‘’ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔
اِس سے پہلے 23 جولائی کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ مملکتِ خُدا دادِ پاکستان میں ۔ ججوں کی حکومت؟‘‘ ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ریاست پاکستان کے چار ’’Pillers ‘‘(ستون) ہیں۔ ’’Legislature‘‘ ( پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( جج صاحبان) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) ہیں لیکن میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صرف ’’Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں۔
اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔ کیوں نہ بھوکے ، ننگے لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ ’’یا رب اُلعالمِین ! ریاست پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کردیں !‘‘۔
28 جولائی کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے اہلِ خاندان کے خلاف مقدمات سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ پاکستان میں بڑی آہستگی سے ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔
کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؓ کا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیان بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔
’’ دوسرے چیف جسٹس صاحبان ! ‘‘
17 جنوری2019ء کو چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ریٹائر ہُوئے تو اُن کے بعد 18 جنوری 2019ء سے 20 دسمبر 2019ء تک جناب آصف سعید خان کھوسہ صاحب چیف جسٹس آف پاکستان رہے اور اُن کے بعد 21 دسمبر 2019ء سے آج تک جناب گلزار احمد صاحب چیف جسٹس آف پاکستان ہیں ۔ عدالتی انقلاب کے بعد مَیں نے کئی بار لکھاکہ مختلف مقدمات میں ملوث سیاستدانوں نے اپنے اپنے طورپر یا متحد ہو کر "Counter-Revolution" (ردِ انقلاب) کی حرکات شروعات کردِی ہیں ۔
’’ میاںؔ ثاقب نثار اور میاں ؔ محمد نواز شریف ! ‘‘
معزز قارئین ! 20 فروری 2018ء کومیرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ میاںؔ ثاقب نثار اور میاں ؔ محمد نواز شریف ! ‘‘۔ مَیں نے لکھا کہ ’’ یہ محض اِتفاق ہے کہ ’’ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار میاں ؔ کہلاتے ہیںاور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف بھی میاںؔ۔ مَیں نے کل (19 فروری کو) ایک بار پھر مولوی نور اُلحسن نیئر ؔ (مرحوم) کی ’نور الُلغات ‘‘ دیکھی ۔ میاں ؔ کے لغوی معنی ہیں۔’’بہت بڑا بزرگ اور سرداروںکا سردار‘‘ اور یہ کہ میاں ؔ ’’مِیراں‘‘ کا مخفف ہے ۔
’’میراں ‘‘ حضرت غوث اُلاعظم شیخ عبد اُلقادر جیلانیؒؒ ؒ کا لقب ہے۔ اردو اور پنجابی کی دوسری لُغات میں میاں ؔکے معنی ہیں’’اللہ ، خُدا، آقا ، مالک ، سردار، اُستاد، مُدّرس، مسجد کا مولوی، باپ، بیٹا، شہزادہ، بھلا مانس، نیک اور خاوند! ‘‘۔ صاحب / جناب کی جگہ اپنے برابر کے یا کم مرتبہ شخص کو مخاطب کرتے ہُوئے اُسے بھی میاں ؔکہتے ہیں ۔ اُستاد شاعر حضرت امیر مینائیؔ ؒنے کہا تھا کہ…
’’ مُجھ کو گلیوں میں جو دیکھا ،چھیڑ کر کہنے لگے !
کیوں میاںؔ ؟ کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو؟ کیا جاتا رہا؟‘‘
…O…
پنجابی کے نامور شاعر سیّد وارث شاہ ؒنے جھنگ کی ہِیر ؔسیال اور ضلع سرگودھا کے گائوں تخت ہزارہ کے میاں مُراد بخش رانجھا ؔ کی داستانِ عِشق لِکھی تو اُس کے آغاز میںاپنے ہر قاری کو میاں ؔ کہہ کر مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ …
اوَل حمد خُدا دا وِرد کیجئے ،
عِشق کِیتا سُو، جگ دا، مُول میاں!
پہلوں آپ ہی رَبّ نے ، عِشق کِیتا،
معشُوق ہے نبی رُسولؐ میاںؔ!
…O…
عِشق پِیر فقِیر دا مرتبہ اے،
مرد عِشق دا بَھلا ،رنُجول میاںؔ!
کِھلے تنہاندے باغ، قلُوب اندر،
جنہاں کِیتا اے عِشق قبُول میاں!ؔ
…O…
سیّد وارث شاہ ؒنے کئی بار خُود کو بھی میاںؔ کہہ کر مخاطب کِیا ۔ ایک مِصرع ہے …
وارث شاہ میاں ؔ، بِناں بھائیاں دے ،
سانُوں جِیونا، ذَرا دَرکار ،ناہِیں!
ہمارے یہاں سماجی اور سیاسی طور پر بڑے ؔلوگ میاں ؔکہلاتے ہیں ۔ چیف جسٹس میاں ؔثاقب نثار اور نااہل وزیراعظم میاں ؔمحمد نواز شریف بھی ۔
میاں ؔ ثاقب نثار کو بد عنوان طبقّوں کے خلاف "Fight" ( جنگ یا لڑائی) کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہُوئی؟ اور اُنہوں نے "Fighter" جنگجو کہلانا کیوں پسند کِیا؟ ۔ اِس کا جواب سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو دینا ہوگا۔
اگر اُنہوں نے اِس سوال کا جواب نہ دِیا تو عوام اُن سے اُن کی بد عنوانیوں کا حساب کیوں نہیں لیں گے؟ جِن حکمرانوں / سیاستدانوں نے ( اپنے اتحادی مولویوں کو ) ساتھ ملا کر قوم کی دولت بیرونی بینکوں میں جمع کروائی اور بیرونی ملکوں میں اپنے اور اپنی اولاد کے نام سے جائیدادیں بنائیں، وہ ’’بدترین جمہوریت‘‘ قائم رکھنے کے لئے پاکستان کی محب وطن فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بد زبانی کرنے میں یقیناً ناکام رہیں گے۔ خبردار! کہ ’’ پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اُستاد شاعر مِیر تقی مِیرؒ کی طرح ’’ درویش ‘‘ نہیں ہیں ۔جنہوں نے اپنے بارے کہا تھا کہ …
فقیر ا نہ آئے ، صدا کر چلے !
میاںؔ خُوش رہو !، ہم دُعا کر چلے!
…O…
سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے بارے اُستاد شاعر امام بخش ناسخ سیفیؔ نے پیشگی کہہ دِیا تھا کہ …
طوق و زنجیر ، اِس کا گہنا ہے !
میاںؔ مجنوں نے ، اِس کو پہنا ہے!
………………(جاری ہے)