کورونا بھی سیاسی ہوگیا ہے
جب سے کورونا کا شور سن رہے ہیں۔ اس کے پھیلاؤ کے مختلف ذرائع بھی سامنے آرہے ہیں جن میں سب سے بڑا ذریعہ سماجی رابطے اور نزدیکی میل جول قرار پایا ہے جن میں شادی بیاہ کی تقاریب، بازاروں میں رش،اسکول اور کالجوں میں بچوں کا میل جول،سماجی سرگرمیاں، سیاسی اور مختلف مذہبی جلسے جلوس وغیرہ شامل ہیں۔تب سے ہی ہمارے پیارے ملک پاکستان میں لاک ڈاؤن کی شکل میں احتیاطی تدابیراختیار کی گئی ہیں۔اسکول،بازار اور سماجی رابطوں پر پابندی لگی مگر نظریہ ضرورت کے تحت۔ الحمد و اللہ کورونا کی اتنی سنگینی پاکستان میں نظر نہیں آئی جتنی باقی ممالک میں دیکھی گئی‘کیسسز کے ساتھ اموات کی شرح بھی کنٹرول میں رہی۔ اس کی ایک وجہ تو زیادہ تر ڈر اور خوف کی وجہ سے کیسز کا رپورٹ نا ہونا بھی ہے مگر جب سے دوبارہ کورونا نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے پھرسے خوف اور دہشت کی لہر اٹھ رہی ہے مگر پاکستان میں گورنمنٹ اور اپوزیشن کی جانب سے اس بار کورونا پر پچھلی دفعہ سے نسبتا زیادہ سیاست کی جارہی ہے۔کورونا پر جہاں جہاں گورنمنٹ کے اپنے مفادات وابستہ ہوئے وہاں پابندی دیکھنے میں نہیں آئی مگر جیسے ہی اپوزیشن کی جانب سے کچھ ہونے کا خدشہ پیش آیا فوراً کورونا کی احتیاطی تدابیر یاد آئیںجس کی حالیہ مثال گلگت بلتستان کے سیاسی جلسے جلوس تھے‘جس میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود بھی جلسے ہوتے رہے اور لوگوں کی کثیر تعداد نے ان میں شرکت کی۔ مجمع لگائے گئے،ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں. اس میں گورنمنٹ اور اپوزیشن دونوں کے جلسے ہوتے رہے مگر مجال ہے جو کسی کو کورونا کے پھیلنے کا سبب یاد آیا ہو یا کوئی پابندی لگائی گئی ہومگر جیسے ہی گلگت بلتستان کے الیکشن اختتام پذیر ہوئے تو گورنمنٹ کو کورونا کے بڑھتے کیسسز اور ایس او پیز کی یاد ایک دم سے پریشان کرنے لگی اور پی ڈی ایم کے پشاور اورلاہور میں مشترکہ جلسے کو روکنے کا جواز بھی مل گیا۔ اس اقدام کا سب سے زیادہ اثر بچوں کی تعلیم پر پڑاکیونکہ تعلیمی ادارے جو کہ صرف دو مہینے قبل ہی کھلے تھے اور پڑھائی کی شرح بھی کم ہوگئی تھی‘ بچوں کا رحجان پڑھائی کی جانب مشکل سے دوبارہ راغب ہوگیا کہ یہ نئی صورت حال سامنے آئی اور دوبارہ سے اسکول بند کردیئے گئے.اس سے شہری علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہے تو تعلیم کچھ حد تک کور کی جاسکتی ہے مگر دیہی علاقوں کو جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں مزید تباہی کی جانب دھکیلا جارہا ہے کیونکہ پچھلی بار بھی انہی علاقوں کے بچوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور اس بار بھی کم و پیش ویسی ہی صورت حال نظر آرہی ہے۔ بات یہ نہیں ہے کورونا کو روکنے کے لیے حکومت کوئی اقدامات نہ کرے. لازمی ہے کہ عوام کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے اپنے طور پر احتیاطی تدابیر کرے اور ان پر سختی سے عمل بھی کروائے مگر یہاں الٹا حساب کتاب ہے۔
احتیاطی تدابیر اس وقت کی جاتی ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہو. یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں کورونا سے جانی نقصانات کم ہوئے ورنہ تو مارچ سے لے کر اب تک جو یہاں کے ایس او پیز کی حالت رہی ہے اس لحاظ سے کورونا نے تباہی ہی پھیلانی تھی. شروع میں کچھ علاقوں کو چھوڑ کر باوجود لاک ڈاؤن کے لوگوں نے ایس او پیز کو مکمل نظر انداز کیا. سب سے پہلے تو بارڈر کھول دیئے گئے اور لوگ کورونا کو پاکستان میں لانے کا سبب بنے۔اس کے علاوہ اگر بازار کے چکر لگاؤ تو وہاں لوگوں کا جم غفیر ایسے لگتا ہے کہ پوری آبادی ایک ہی دن میں خریداری کے لیے نکلی ہے. اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ پاکستان میں آکر کورونا میں بھی سیاسی خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں. سیاست کی طرح اس کا شکار بھی تعلیم ہی ہے۔