جمعرات ‘ 10؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 26؍ نومبر 2020ء
20 سالہ لڑکی دکھا کر 70 سالہ بڑھیا بیاہ دی ، دولہا کی چیخ و پکار
پہلے تو اکثر لڑکا دکھا کر ’’بوڑھا‘‘ بیاہنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جو اکثر نکاح پڑھنے سے پہلے ہی نہ صرف بے نقاب اور ناکام ہو جاتی تھیں بلکہ باراتیوں اور لڑکی والوں میں گھمسان کارن بھی پڑ جاتا تھا ، پھر شادی ہال یا کنوپی کا وہ علاقہ جہاں ٹینٹ لگے ہوتے تھے ، میدان جنگ بن جاتا تھا۔ بپھرا ہجوم ٹینٹ، قناتیں اکھاڑ پھینک دیتا ، دیگیں اُلٹا دی جاتیں جو بھاگ نکلتا وہ بچ جاتا اور جو قابو آ جاتا وہ لڑکی والوں کی بجائے پولیس کا ’’مہمان‘‘ بنتا۔ خیر! ایسے واقعات تو ماضی کی روایات اور قصے کہانیاں بن گئی ہیں ، ویسے بھی ’’تبدیلی‘‘ نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ نمودار ہوئی ہے ، نوسر بازوں نے بھی نئے طور طریقے متعارف کرائے۔ کرم پور کے علاقے میں 20 سالہ لڑکی دکھا کر 70 سالہ بڑھیا بیاہ دی جس پر دولہا نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ اب ظاہر ہے وہ دولہا روئے پیٹے گا نہیں تو کیا کرے گا۔ جب دلہن اس کی نانی دادی کی عمر کی ہو گی۔ پتہ نہیں نوسر بازوں کو کیا سوجھی ، ’’دلہن بڑھیا ‘‘ بھی ان کے گینگ کی رکن تھی یا محض ’’دہاڑی‘‘ پر ہی لائی گئی تھی۔ یا کسی دھوکے کا شکار ہوئی یہ تو دولہا جانتا ہو گا یا 70 سالہ ’’دلہن‘‘ کو پتہ ہو گا کہ اصل حقائق کیا ہیں ۔ ویسے اتنا ’’بے جوڑ‘‘ رشتہ کرانے والے اس ’’نوسرباز میرج بیورو گینگ‘‘ کو ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ بات رخصتی تک بھی پہنچی تھی یا نہیں۔ اس بے چارے دولہا سے تو بس یوں ہی اظہار ہمدردی کیا جا سکتا ہے۔
اول شب وہ بزم کی رونق ، شمع بھی تھی ، پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور ماہرہ خان دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل
پاکستان میں خواتین کو تعلیم و ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں اور پھر یہی باہمت خواتین توانا آواز، جرأت مندانہ موقف کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بناتی ہیں، صنف نازک ہوتے ہوئے بھی زندگی کی دوڑ میں مردوں سے پیچھے نہیں رہتیں۔
بعض اوقات تو ایسے کارہائے نمایاں انجام دیتی ہیں کہ ’’مردانگی‘‘ بھی ان کی ’’نسوانیت‘‘ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پاتی۔ جیسے شیریں مزاری فرانسیسی صدر کے بارے میں اپنے جرأت مندانہ موقف کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہیں ، پاکستانی قوم کو ان پر فخر ہے۔ حکومت پاکستان کے احساس پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ اداکارہ ماہرہ خان خواتین پر جنسی تشدد کے خلاف ایک موثر آواز ہیں۔
اسی طرح بھارت کی بلقیس بانو بھی ان 100 بااثر خواتین میں شامل ہیں جو بھارت کے متنازعہ قانون شہریت کیخلاف مزاحمت کی علامت ہیں ۔ بااثر خواتین کی جدوجہد پر حوا کی بیٹی یقیناً نازاں ہے تاہم زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا مردوں کے لیے بھی عار ہے اسی شوق کے عالم میں لندن میں میڈیکل یونیورسٹی کے پاکستانی طالب علم میر ابراہیم ساجدنے درد نہ کرنے والی سوئی ایجاد کر کے ’’گلوبل پیڈیا ٹرک ریسرچ انوسٹی گیٹر ایوارڈ ‘‘ حاصل کر لیا۔ اس لیے یہ سچ ہے کہ …؎
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
٭٭٭٭٭
گورنمنٹ کالج برائے خواتین فیصل آباد میں پنجابی بولنے پر پابندی لگا دی گئی
پنجابی زبان نہ تو ذخیرہ الفاظ کے حوالے سے تنگ دامن ہے نہ فصاحت و بلاغت اور بیان و بدیع کے اعتبار سے جھولی خالی رکھتی ہے بلکہ عربی زبان و ادب کے ممتاز و معروف استاد پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کا کہنا ہے کہ پنجابی زبان فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے عربی زبان کا مقابلہ کرتی ہے۔ پنجابی ادب میں نثر کے ساتھ ساتھ نظم ، غزل سمیت دوہڑے ، ماہیے اور ٹپّے بھی موجود ہیں جو شایدکسی دوسری زبانوں میں نہ ہوں۔ پنجابی زبان میں رشتوں ، ناطوں کے لیے الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہے کہ انگریزی اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح ولادت ، بچپن سے لے کر لڑکپن اور بڑھاپے تک کی زندگی کے مراحل کا تذکرہ کرنے کے لیے الگ الگ الفاظ موجود ہیں ، اسی طرح پند و نصائح کے لیے بھی ضرب المثال اور محاورات کا ذخیرہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر کوئی قابل ذکر کوشش نہیں ہوئی ، تاہم اس حوالے سے چودھری پرویز الٰہی (کی وزارت اعلیٰ )کا دور مستثنیٰ ہے کیونکہ انہوں نے پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ’’پلاک‘‘ (پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج اینڈ آرٹ و کلچر) قائم کیا تھا بلکہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے بھی قابل ستائش اقدامات کئے تھے۔
پنجاب میں رہنے والا ہر شخص خواہ و کیمبرج اور آکسفورڈکا ہی پڑھا کیوں نہ ہو اپنے گھر میں ، فیملی یا دوستوں کے ساتھ پنجابی ہی بولتا ہو گا۔ اب پتہ نہیں پرنسپل اپنی ماں بولی کی اہمیت اور قدر کو کیوں نظر انداز کر رہی ہیں۔
ایسا نہ ہو معاملہ ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ‘‘ والا ہو جائے۔ کیونکہ پنجابی بولنے سے نہ تو تعلیم و ترقی میں رکاوٹ آتی ہے نہ لب و لہجہ بگڑتا ہے ، پتہ نہیں گورنمنٹ خواتین کالج گلستان کالونی فیصل آباد کی پرنسپل کے پیشِ نظر ’’اصلاح‘‘ کا کون سا پہلو ہے۔
خدشات تو ایسے لگ رہے ہیں کہ
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
٭٭٭٭٭