جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق کی والدہ محترمہ رضائے الٰہی سے رحلت فرما گئیں۔اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔انہیں لوئی دیر کے آبائی گائوں میں دفن کیا گیا۔سراج صاحب سے تعزیت کیلئے فون توکئے مگر لوئی دیر میں ان سے رابطہ نہ ہو سکا،دو روز قبل لاہور تشریف لائے تو میں نے بردارم امیر العظیم قیم جماعت اسلامی سے کہہ کر وقت لیا اور سراج صاحب سے ملاقات بھی کی، تعزیت بھی کی۔اور جماعت کی حالیہ سرگرمی کی تفصیلات بھی معلوم کیں۔اس موقع پرمحترم فرید پراچہ اور برادرم جاوید قصوری بھی موجود تھے اور جماعت کے سیکرٹڑی اطلاعات قیصر شریف بھی۔ ان سے گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:
موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے ساتھ ہی جو بڑے بڑے نعرے دیئے ان میں پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی ریاست بنانا،ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار اور پچاس لاکھ بے گھروںکو چھت دینے کے نعرے شامل تھے ۔ معاشی زبوں حالی چونکہ حد سے بڑھی ہوئی ہے اس لئے حکومت نے معاشی بہتری کو اپنی اولین ترجیح قرار دیکر معاشی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی ۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ پہلے سو دنوں میں معاشی اعشاریے درست سمت پر گامزن ہوجائیں گے ۔ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضوں کی ضرورت نہیں پڑیگی،مگرایسا نہ ہوسکا۔ سابقہ حکمرانوں خواہ وہ جمہوری ہوں یا فوجی ،سب نے اپنے اپنے دور میں اسی طرح کے دعوے اور وعدے کئے تھے۔ ان دعوئوں میں معیشت کی بہتری کادعوی سب نے اپنے اپنے انداز میںکیا تھا ۔سبھی جانتے تھے کہ عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی بے روز گاری اور غربت ہے اس لئے جو بھی آتا ہے وہ معیشت کو اٹھانے کی بات کرتا ہے ، لیکن سودی قرضوں کی معیشت نے ملک کے پورے معاشی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ملکی جی ڈی پی کا قریبا چالیس فیصدقرضوں کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے ۔سراج الحق کہتے ہیں کہ ملکی معیشت سودی نظام کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوئی ہے اور ترقی کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے ۔قائد اعظم ؒ نے 72سال پہلے اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر بلاسود معیشت کا اعلان کیا تھا۔مگر بانیٔ پاکستان کے اس حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ہم نے پون صدی گزار دی ۔دستور پاکستان کی دفعہ ایف 38میں دوٹوک حکم دیا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلد ممکن ہو ،ربا کو ختم کرے گی لیکن چالیس سال سے ہم دستور کی بھی خلاف ورزی کررہے ہیں۔اسی طرح وفاقی شرعی عدالت نے 1991میں سود کے خاتمہ کا فیصلہ دیا تھا مگر تیس سالوں سے ہم نے عدالتی احکامات کو بھی پس پشت ڈا ل رکھا ہے ۔ جماعت اسلامی نے ایک بار پھر طویل دورانیے کی ملک گیر انسداد سود مہم شروع کردی ہے ۔جماعت اسلامی پورے ملک کی رائے عامہ کا دبائو ،حکومت ،پارلیمنٹ اور فیصلہ ساز اداروں پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے ۔ سود کے خلاف اس مہم میں خطبات جمعہ میں علماء کرام سود کی حرمت کے بارے میں عوام میں شعوراور آگہی پیدا کریں گے اور سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے عوام میں بیداری پیدا کی جائے گی۔اس مقصد کیلئے ملک بھر میں انسداد سود کیلئے سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد ہورہی ہیں ۔سود کے خلاف ہورڈنگز اور بینرز آویزاں کئے جارہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر بھی انسداد سود مہم زور شور سے جاری ہے ۔
ساڑھے چودہ سو سال قبل جب رحمت للعالمین ﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی ،اس اسلامی ریاست نے ایک غریب پرور معاشی نظام متعارف کروایا۔ مدینہ اکنامکس کی بنیاد قرآن کے تین الفاظ صلٰوۃ ، زکوٰۃ اور یْنفِقْون پر ہے۔صلوٰۃ اور زکوٰۃ سیاسی اور معاشی نظاموں کے قائم کرنے کے بارے میں ہے۔ جب حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو آپﷺ نے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر کی۔انصار اور قریش میں ’مواخات کا نظام‘ قائم کیا اوراس کے بعد ’میثاقِ مدینہ‘ کیا۔یہ صلوٰۃ کے نظام کاقیا م تھا۔ صلوٰۃ صرف نماز کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے، جو ایمانیات، اخلاقیا ت اور سیاست پر مشتمل ہے۔ زکوٰۃمعاشی نظام کا نام ہے جس کے تحت لو گ مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں اور اس قدر دولت کماتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے کے اہل ہوجائیں۔ صلوٰۃ کے نظام کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی مارکیٹ قائم کی تاکہ معاشی نظام کو نافذ کر سکیں۔ اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے چاربازار تھے مگر آپﷺ کو اسلامی مارکیٹ کے قیام کی اس قدر جلدی تھی کہ یہ مارکیٹ ایک بڑے خیمہ میں لگائی گئی جس میں آپﷺ نے تجارت پر ٹیکس ختم کردیا۔ بہت سے تاجر اور خریدار یہودیوں کی مارکیٹ سے نکل کر خیمہ والی مارکیٹ میںآگئے۔اس مارکیٹ کی مقبولیت سے خائف ہوکر یہودی سردار کعب بن اشر ف نے اس خیمہ کی رسیا ں کاٹ دیں، جس کے نیچے مارکیٹ قائم تھی۔اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مارکیٹ کے لیے ایک بڑامیدان تلاش کیا جائے جو یہودیوں کی مارکیٹ سے دور مگر مسجد نبوی ؐسے نزدیک ہو، یعنی وہی صلوٰۃاور زکوٰۃ کا نظام۔معاشی نظام کے نفاذ کے باوجود کچھ لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔مدینہ میں ایک سوال آپ ﷺ سے پوچھا گیا: مَاذَایْنفِقْونَ، ہم کیا خرچ کریں ؟قرآن نے اس کا جواب دیا:قْلِ العفویعنی جو ضرورت سے زائد ہے۔ اس طر ح قرآن نے ایک مکمل معاشی نظام دیا۔
تسلیم کرنا پڑے گاکہ پاکستان کو اس کے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کیلئے جماعت اسلامی نے بڑی جدوجہد کی ہے ۔سود کے خلا ف جتنا کام جماعت اسلامی نے کیا ہے شاید ہی کوئی دوسرا کرسکا ہو۔بانیٔ جماعت اسلامی سید مودودیؒ نے سود پر کتاب تصنیف کرکے سود کے معاشی نقصانات کی مکمل تصویر کشی کردی ہے ۔اسی طرح جماعت اسلامی کے ہی پروفیسر خورشید احمد نے جو عالمی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر معاشی ماہر کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں‘ اسلامی معیشت کے احیا ء کیلئے جو خدمات سرانجام دی ہیں انہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024