بیرونی دنیا میں مقیم برسرروزگار پاکستانی جنہیں گزشتہ ستر سالوںسے ’’ محب وطن پاکستانی ‘‘ کا لقب ہر حکومت نے دیا ہے اور یہ لقب آج تک جاری ہے جب بھی پاکستان کو زرمبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ضرورت ہر وقت رہتی ہے اسوقت بیرون ملک پاکستانیوںکی حب الوطنی او ر محبت کی ہر حکومت کو یاد ستانا شروع کردیتی ہے مگر اگر کوئی یہ بتا سکے کہ ان ’’حب الوطنی ‘‘کے لقب کو سینے سے لگائے پاکستانیوں کو کسی بھی حکومت نے کیا مراعات دی ہے ؟؟ ہاں وزیر اعظم جمالی نے بیرون ملک پاکستانیوںکو یادگار سہولت مہیا کی تھی جسکے تحت وہ بعد از مرگ قومی ائرلائنزمیں بلامعاوضہ اپنی یا اپنے اہل خانہ کی میت کو پاکستان بھیج سکتے ہیں۔ چلیں جمالی صاحب نے زر مبادلہ کمانے والے اس ATM کی بعد از مرگ تو عزت کی ۔ اخراجات پھر بھی ہیں جو میت کے ساتھ جائے گا اس پر تو معاوضہ لازم ہوگا ۔ بیرون ملک پاکستانی خاص طور پر خلیجی ممالک میں برسرروزگار تو وطن پر اپنی جان نچھاور کرتے نہیں تھکتے آج کے اس بین الاقوامی طور پر مہنگائی کے دور میں بھی صرف سعودی عرب سے پاکستانیوں نے 593.1ملین ڈالر پاکستان بھیجے ہیں ، بیرونی دنیا جہاں کم آمدن والے پاکستانی رہتے ہیں ان میں خلیجی ممالک سے بھیجی جانے والی رقم سعودی عرب کے پاکستانیوںکی رقم کے بشمول 1228. 08 ملین ڈالرز ہے ، جبکہ بقیہ دنیا یور پ اور امریکہ ، برطانیہ ملا کر 503.9 ملین ڈالرز ہے۔ یہ تقابلی جائزہ اس لئے نہیں کہ یورپ اور امریکہ ، برطانیہ میںکم محب وطن ہیں جو ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ میری عرض یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے ماسوائے حب الوطنی کا ’’سوکھا ایوارڈ ‘‘دینے کے کیا کیاہے ؟؟ موجودہ حکومت میںوزارت افرادی قوت کے وزیر کی شکل بیرون ملک پاکستانیوںنے اخبارات اور ٹی وی پر دیکھی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے پاکستانی خوش نصیب ہیں کہ انہوںشائد انہیں سامنے سے بھی دیکھا ہو۔ خلیجی ممالک کے خاص طور سعودی عرب کے تارکین وطن یہ شرف حاصل نہ کرسکے ۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ خلیجی ممالک کویت ، دوبئی ، بحرین میں وہ پاکستانی جو چھٹیوںپر وطن گئے تھے اب کروناء وباء کی وجہ سے اعلان کیاگیا ہے انکی واپسی ممکن نہیںہورہی ہے۔ دس ممالک کے افراد کو واپسی کو منع کیا گیا جن میں پاکستان شامل ہے۔ وجہ ان ممالک میں کروناء بتائی گئی ہے ، یہ پابندی لگانے والے کوئی غیر مسلم ممالک نہیں بلکہ خیر سے مسلمان ملک ہیں مگر بھارت جو کروناء میں ڈوبا ہوا ہے ان پر کوئی قدغن نہیں۔ اسی طرح ادارے اپنے ملازمین کی تعداد کم کررہے ہیں وجہ کروناء ہی بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان وہ ملک ہے جو کروناء پر بہترین انداز میں قابو پارہا ہے یہ اور بات ہے حکومت پاکستان نے کروناء کیخلاف اتنا پروپگنڈہ کیا ہے کہ عوام موت کے خوف سے مہنگائی اور بے روزگاری کو بھول گئے ہیں کہ جب زندہ ہی نہیں رہے توپٹرول ، بجلی، آٹا ، چینی ، دال ، سبزی گوشت مہنگا ہو تو کیا فکر ؟؟ سعودی عرب کے بعد اسوقت پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں کروناء سے بھرپور تحفظ فراہم کرنے کی کاوشیں قابل ستائش ہیں ۔ گذشتہ دنوں حکومت نے زرمبادلہ کی پاکستان آمد کیلئے بیرون ملک ایک مستحسن اقدام اُٹھایا ہے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے تحت موبائل اور انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں مقامی اور غیر ملکی کرنسیوں میں بینک اکاؤنٹ کھولنے اور برقرار رکھنے کی اجازت دی ہے۔اس سے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان آئے گامگر وہاں بھی نوکر شاہی کا شاہانہ مشورہ ، کہ ڈیجیٹل اکائونٹس جو بیرونی ممالک میںمقیم پاکستانیوں نے کھولنے ہیں ا نکی لاکھوں یا کروڑوںکی اشتہاری مہم پاکستانی میڈیا پر صرف کی جارہی ہے جبکہ بیرونی دنیا میں مقیم پاکستانیوں کو اس اسکیم کی طرف راغب کرنا مقصود ہے ، بیرونی دنیا میں بے شمار ایسے چینلز ، اخبارات جو یا تو پاکستانی چلا رہے ہیں اور حکومت پاکستان کی بغیر کسی فائدہ کے سالوںسے تشہیر کررہے ہیں انکی خدمات نہیں لی جارہیں، ڈیجیٹل اکائونٹ جیسے مستحسن اقدام کو بھی ’’ قرض اتارو ملک بچائو ‘‘کی طرح لگتا ہے سیاسی نعرہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ورنہ اسکی تشہیر کیلئے بیرون ملک موجود پاکستانی میڈیا کی خدمات لی جاتیں۔ ملکی معیشت کوبہتری کی طرف گامزن کرنے کی خواہاں حزب اختلاف بھی نظرنہیں آتی کہ اس میں شامل جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں زرمبادلہ زیادہ سے زیادہ ملک میں لانے کے متعلق کیا اقدام کیا تھا ؟ پاکستان مہنگائی کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست 25 ملکوں میں شامل ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ ملک کے غریب اورمتوسط طبقات بھی معاشی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہوں۔ عوام کو اگر اشیائے ضروریہ کی سستے داموں اور مسلسل ترسیل کو یقینی بنا لیا جائے تو حکومت کو اور کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی۔ اسی معاملے پر حکومت کی پوزیشن کمزور ہے اور عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ملک میں مہنگائی کی شرح میں عدم استحکام یہ ظاہرکرتا ہے کہ حکومت کے متعلقہ محکمے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی جامع پالیسی بنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو پائے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مجھے تو اپنے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ بھی وحشت میں ڈال رہا ہے۔ 70کی دہائی سے قرضوں کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے۔ وہ قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے مزید قرض لیکر شادیانے بجاتی ہے۔ ہمارے لوگ جفاکش اور صابر ہیں۔ ہر چار سال یا پانچ سال بعد نئی امیدوںکے ساتھ پولنگ بوتھ چلے جاتے ہیں کہ انکی تقدیر کا فیصلہ ہوگا مگر تقدیر ہے کہ بدل کر نہیں دیتی۔ پھر وہی چکر ویو میں پڑ جاتے ہیں یعنی روٹی اور روزگار کی تلاش میں، ہاں دوران انتخاب کہیں کہیں کھانا ضرور مل جاتا ہے۔ جہاں سمندر۔ پہاڑوں اور ریگ زاروں میں تیل۔ سونا۔ تانبا۔ قیمتی پتھر چھپے ہوں۔ جہاں موسم سازگار ہو۔ جہاںزمین زرخیز ہو۔ وہ قوم پہلے قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے لے۔ مقروض نسلیں پیدا کرتی رہے، کبھی قرض اتارو، کبھی ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوںکو آواز دی جائے اور بیرون ملک پاکستانی بھاگے دوڑے ملک کی خدمت کیلئے حاضر ہوجائیں بدلے میں انہیں پاکستان میں انہیںکیا ملا ؟؟ انکے اہل خانہ غیر محفوظ، پاکستان منتقلی پر اسے سونے کی مرغی سمجھا جائے ؟؟نہ ہی متبادل روزگار کا کوئی منصوبہ بس سیاست ہی سیاست۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024