ایمان کی بنیاد محبت ِالٰہی ہے اور اللہ سے محبت کرنے کی صورت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے (اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ وراء الوریٰ اور نگاہوں سے پوشیدہ ہے اس لئے کوئی انسان اس سے براہِ راست محبت نہیں کر سکتا، صرف آنحضرت ﷺکے واسطہ سے اس ذات ِ بے چوں تک پہنچ سکتا ہے) اور اتباعِ رسولؐ ، بغیر محبتِ رسولؐ نہیں ہو سکتی اس لئے دراصل ایمان کی بنیاد محبت ِرسولؐ ہے۔
نظم کے اشعار کا مختصر مطلب پیش ہے۔
۱:… انسانی خودی کی ترقی، اور ارتقائے کامل اس بات پر موقوف ہے کہ انسان کلمۂ توحید پر اس طرح ایمان لائے کہ اسکے عمل سے یہ ثابت ہو کہ وہ کائنات میں اللہ کے سوا نہ کسی ہستی سے ڈرتا ہے نہ کسی کی اطاعت کرتا ہے یعنی اللہ کے سوا نہ وہ کسی کو اپنا معبود قرار دیتا ہے، نہ مقصود، نہ مطلوب، اس کا مرنا اور جینا صرف اللہ ہی کیلئے ہے، (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک اللہ سے شدید محبت نہ ہو) یعنی توحید پر عامل ہونے سے خودی کی مخفی قوتیں بروئے کار آ سکتی ہیں اور وہ اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ سکتی ہے۔
’’خودی‘‘ کو اگر تیغ سے تشبیہ دی جائے تو جب تک تلوار میں دھار نہ ہو اور کاٹ میں تیزی نہ ہو، تلوار بیکار ہے، اس لئے توحید خودی کیلئے بمنزلہ سان ہے۔ جس طرح سان پر چڑھانے سے تلوار، صحیح معنی میں تلوار بن جاتی ہے، اسی طرح جب مسلمان حقیقی معنی میں موحّد بن جاتا ہے تو اس کی خودی اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اسی نکتہ کو اقبالؒ نے یوں بیان کیا ہے:
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
۲:… جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں نمرود نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور اللہ کے بندوں کو اپنی پرستش پر مجبور کیا تھا، اسی طرح موجودہ زمانہ میں کئی نمرود پیدا ہو گئے ہیںجو خدائی کا دعویٰ کر کے، اللہ کے بندوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آج کوئی اللہ کا بندہ ایسا پیدا ہو، جو عصر حاضر کے بتوں کو پاش پاش کر دے۔ حقیقت ِحال تو یہ ہے کہ یہ دنیا تو ایک صنم کدہ ہے اور پرستش اور اطاعت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔
۳:… اقبالؒ مسلمان سے مخاطب ہے کہ اے مسلمان! اگر تو نے اس دنیائے فانی سے دل لگایا ہے تو بلاشبہ تو نے ’’متاعِ غرور‘‘ کا سودا کیا ہے۔ اقبالؒ نے یہاں دنیا کی زندگی کو قرآنی تعلیم کے مطابق متاعِ غرور یعنی دھوکہ کی پونجی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔ [الحدید:۲۰]
’’نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکہ کی پونجی‘‘
اقبالؒ کہتے ہیں کہ نہ اس دنیا کی کوئی اصلیت ہے اور نہ اس کا سود و زیاں کوئی حقیقت رکھتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے سوا نہ کوئی معبود ہے، نہ مقصود ، نہ مطلوب!!
۴:… اقبالؒ کہتے ہیں کہ دنیا اور اسکے متعلقات مثلاً مال و دولت، بیوی بچے، رشتہ دار اور مادی سامانِ آرائش، جن کیلئے تو اللہ اور اسکے احکام سے رُوگردانی کرتا ہے۔ یہ سب بے حقیقت اور فانی چیزیں ہیں، یہ سب تیرے وہم و گمان کے تراشے ہوئے بت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا، مسلم کا نہ کوئی معبود ہو سکتا ہے نہ مطلوب نہ مقصود۔ اللہ ہی ایک مستقل، قائم بالذات اور باقی ہستی ہے۔ وہی اس لائق ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔
۵:… اقبالؒ نے ’’اسرارِ خودی‘‘ میں درج ذیل شعر کے ذریعے، یہ بات واضح کی ہے کہ زندگی زمانہ کی ہی ایک شان ہے اور زمانہ کا وجود زندگی ہی سے وابستہ ہے یعنی زندگی نہ ہو تو زمانہ کا تصور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب تصور کرنے والا ہی نہیں تو تصور کون کرے گا؟ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’زمانہ کو بُرا مت کہو‘‘۔
زندگی دہر است و دہر از زندگی است
لَا تَسُبُّوا الدَّھْر فرمانِ نبیؐ است
انسان کو سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دینی چاہئے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ رہا ’’زمان‘‘ یا ’’زمانہ‘‘ ، تو وہ ہماری زندگی (حیات) ہی کا دوسرا نا م ہے اور اس کا تصور زندگی ہی سے وابستہ ہے۔ حیات خود اللہ تعالیٰ کے حکم سے موجود ہوتی ہے، جیساکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔ [الاسرائ:۸۵]
’’آپ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے ’’اَمر‘‘ سے موجود ہوتی ہے اور تم لوگ اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہیں حقائقِ اشیاء کا بہت قلیل علم دیا گیا ہے‘‘۔ یعنی روح کی ماہیت عقلِ انسانی کی دسترس سے بالاتر ہے اور زمان و مکان کا تصور خود روح یا حیات سے وابستہ ہے، اس لئے اسکی حقیقت سمجھنا بہت دشوار ہے۔ بقولِ اقبال ؒ صرف وہ شخص زمانہ کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے جو ’’خودی‘‘ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے، جب تک نفس کی معرفت حاصل نہ ہو، زمان و مکان کی ماہیت یا حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی۔
۶:… لا الٰہ الا اللہ ایک ایسی حقیقت ثابتہ ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں درست ہے۔ عموماً لوگ موسمِ بہار میں موسیقی پسند کرتے ہیں لیکن یہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نغمہ ایسا دلپذیر ہے کہ بہار ہو یا خزاں، ہر موسم میں دل کو بھاتا ہے۔ یعنی توحیدِ الٰہی زندگی کی ہر حالت میں انسان کو روحانی سکون اور طمانیت عطا کر سکتی ہے۔
۷:… اگرچہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں مختلف اقسام کے بُت پوشیدہ نہیں اور وہ توحید کی حقیقت سے بیگانہ ہو چکے ہیں لیکن میں تو بہرحال اسلام کا پیغام دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً سناؤں گا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود یا حاکم نہیں ہے۔ چنانچہ اسی مضمون کو بانگِ درا میں یوں ادا کیا ہے:
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی ، باقی بُتانِ آزریتن بہ تقدیر
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
’تن بہ تقدیر‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اقبالؒ کہتے ہیں قرآن مجید نے مسلمانوں کو ایمان کے ساتھ، عملِ صالح، جدوجہد، سعی پیہم اور جہاد کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ اس تعلیم کی بدولت مسلمان دنیا میں حکمران بن گئے، لیکن غیراسلامی تصوف کے زیرِاثر آ کر مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اور ترکِ دنیا کا غلط اصول اختیار کر لیا۔ اور یہ سمجھ لیا کہ اسلام ترکِ دنیا کا حکم دیتا ہے۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے دنیا کو فتح کرو، تاکہ اسلامی نظام قائم ہو سکے، پھر دنیا اور اس کی لذات کو اللہ کی خوشنودی کے لئے قربان کر دو۔ چنانچہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی سطوت کے سامنے قیصر و کسریٰ لرزہ براندام تھے لیکن وہ پیوند لگی ہوئی قمیض پہنتے تھے اور چٹائی پر سوتے تھے۔
۲:… ایک زمانہ تھا مسلمان کے ارادوں میں مشیت ِایزدی پوشیدہ تھی، تائیدِ ایزدی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ جب مسلمانوں نے احکامِ الٰہی سے روگردانی کر لی تو اللہ نے بھی انہیں بھُلا دیا۔ آج مسلمان عملِ صالح سے کنارہ کر کے تقدیر پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ خدا کی تقدیر یعنی اس کا قانون یہ ہے کہ:
لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ [النجم:۳۹]
انسان کو اللہ وہی عطا کرتا ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے۔ اقبالؒ کے مطابق، مسلمانوں نے تقدیر کا غلط مفہوم دماغوں میں جاگزیں کر لیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ اسی مضمون کو یوں ادا کیا ہے:
معنی تقدیر کم فہمیدۂ
نے خدا را نے خودی را دیدۂ
’’اے مسلمان! تو نے تقدیر کا مفہوم ہی نہیں سمجھا، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ نہ تجھے اللہ کی معرفت حاصل ہے اور نہ ہی تو اپنی خودی کی حقیقت سے آگاہ ہے‘‘۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024