ہر کوجہ باش سے ہوشیار رہیں!
مکرمی!پی ڈی ایم کا سربراہ بننے کے بعد بنے مولانا فضل الرحمن نے سہرابندی کے جو پہلا بھاشن دیا وہ یہ تھا کہ حکومت بھارت کارڈ استعمال کر رہی ہے۔مولانا موصوف کے پس منظر سے ہر پاکستانی آگاہ ہے کہ ان کے خاندان کا موقف ’’پاکستان کے قیام کو گناہ‘‘ قرار دیا جانا ہے ۔اس حوالے سے مولانا تو خود مجسم بھارت کارڈ ہیں۔جن دیگر بھارتی کارڈوں کی بارات ان کے ساتھ ہے ۔ان میں اسفند یار محسن داوڑ،اچکزئی خاندان،بھارتی بزنس مینوں شراکت داری شریف فیملی ہے ۔اسی بنیاد پر بلاول انہیں مودی کے یار اورغدار قرار دیتا رہا اور جمہوریت کا راگ الاپنے والی پی پی پی جس کے بانی کا کردار پاکستان کو دو لخت کرنے میں نمایا ںتھا ۔یہ سارے بھارتی کارڈ ہی تو ہیں ان سب کو پاکستان سے کتنی ہمدردی ہے سب جانتے ہیں کسی کو کالا باغ ڈیم کی تکلیف ہے تو کسی کو فوج سے عناد ہے۔ اس سب کی تکالیف کاازالہ اس میں ہے کہ جمہوریت کے راگ کی آڑ میں پاکستان کو انتشار کا شکار کر دیا جائے ۔یوں بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے ۔ڈرامہ ارطغرل میں ایک کردار’’کوجہ باش‘‘تھا جو منگولوں کے مخالف کیمپ میں رہتا انہی کا کھاتا پیتا تھا مگر ہمدرد اورسہولت کار وہ منگولوں کا تھا ان کے مفادات کا نگران ہونے کے ناطے قبائل کو انتشاری سیاست میں دھکیل کر ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا کام بخوبی نبھاتا ہے اس کردار کو دیکھ کر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی بھارتی مفادات کے نگران ’’کوجہ باش‘‘کے نرغے میں جانے کی ایک بار پھرتیاری میں مصروف ہیں ۔افسوس پاکستانی قوم پر ہے جو ڈسنے والی مخلوق کے سوراخ میں بار بار منہ دے لیتی ہے ہر بار ڈسی جاتی ہے مگر سبق حاصل نہیں کرتی۔ (محسن امین تارڑ ایڈو,کیٹ‘ گکھڑ ‘ گوجرانوالہ)