وزیراعظم عمران خان لاہور میں بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا وزیراعظم فرما رہے تھے کہ چینی کی قیمتوں کے معاملے میں حقائق ان تک نہیں پہنچائے گئے، چینی کے ذخیرے متعلق غلط اعدادوشمار پہنچائے گئے ضرورت پڑنے پر چینی غائب تھی اور پھر حکومت کو چینی باہر سے منگوانا پڑی۔ جب وزیراعظم عمران خان یہ فرما رہے تھے تو مجھے کچھ دیر کے لیے ماضی قریب میں بجائے گئے سائرن یاد آنے لگے، مجھے یاد آتا گیا کہ چند ماہ قبل انہی صفحات پر وزیراعظم عمران خان تک پہنچائی جانے والی رپورٹس بارے جو کچھ لکھا گیا آج وہ خود اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ حقائق ان تک نہیں پہنچائے گئے۔ جب یہ مان لیا گیا ہے کہ وزیراعظم کو حقائق سے بیخبر رکھا گیا ہے پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ چینی مہنگی ہونے کی وجہ سے عوام پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیراعظم کو مس لیڈ کرنے والا کون ہے، وزیراعظم عمران خان کے وزیرانِ کرام اور مشیران کیا کر رہے تھے، انہیں کیوں خبر نہ ہوئی کہ زمینی حقیقت کیا ہے، یا پھر وہ خود غلط معلومات پہنچانے والوں کا حصہ تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس اعتراف کے بعد کہ وہ حقیقت سے لاعلم تھے جیسے شوگر ملوں کے خلاف انکوائری ہوئی ہے ویسے ہی ان تمام افراد کے خلاف بھی انکوائری ہونی چاہیے جنہوں نے اس پورے معاملے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے انہیں کیسے بخشا جا سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ مہنگائی صرف کسی ایک فریق کی من مانی سے ہوئی ہے ایسا بالکل نہیں ہے حکومت کے متعلقہ وزیروں کی نااہلی بھی مکمل طور پر شامل ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے فرمایا ہے کہ چینی کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ شوگر ملوں کے خلاف کارروائی کی ہے وہ خود ہی قیمتوںکاتعین کرتے تھے اب چینی کی قیمتوں میں کمی آ رہی اور چینی امپورٹ بھی کی گئی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چینی کی قیمتوں میں کمی کا حکومت کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کمی کرشنگ سیزن کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس میں کسی وزیر مشیر کی کوئی فنکاری شامل نہیں ہے۔ کرشنگ سیزن شروع ہوتے ہی شوگر ملوں والے ذخیرہ کی ہوئی تمام چینی نکالنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں نئی چینی کو ذخیرہ کرنے کے لیے پرانی چینی کو ہر حال میں نکالنا ہوتا ہے اور یہ ہر سال کا معمول ہے۔ کرشنگ سیزن کے آغاز پر چینی کی قیمتوں میں کمی معمول کی بات ہے۔ اس لیے اگر وزیراعظم کو یہ بتایا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں کمی حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہوئی ہے تو یہ غلط ہے۔ یوں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو مس لیڈ کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے ماضی میں بھی وزیراعظم یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ نہیں مس لیڈ کی گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اہم عوامی مسائل ہر وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھتے ہیں اور ملک بھر میں اشیائے خوردونوش کی ناصرف قلت پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نرخوں میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ بالخصوص گذشتہ ڈیڑھ برس میں اس شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے اس کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اب اگر یہ بات کی جائے کہ کیا واقعی چینی کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے یا قیمتیں گرنے کو ہم حقیقی تبدیلی کہہ سکتے ہیں اس حوالے سے بھی میری رائے ذرا مختلف ہے۔ چینی پچپن روپے فی کلو سے شروع ہو کر ایک سو پندرہ روپے فی کلو تک جا پہنچی اور اب ایک مرتبہ پھر پچاسی روپے سے سو روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ پچین روپے والی چینی اگر پچاسی یا پچانوے روہے مل رہی ہو تو اسے سستا کیسے کہا جا سکتا ہے۔ عوام تو پھر بھی تیس روپے فی کلو اضافی ادا کر رہے ہیں۔ اس قیمت کے بعد کیسے کہا جا سکتا ہے کہ چینی سستی ہو گئی ہے۔ حکومت نے اب بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو ایک مرتبہ پھر چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور پھر تمام تر بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر حکومت کے دعوے کو سچ مان لیا جائے تو کیا کوئی وزیر یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ آئندہ برس فروری میں بھی چینی نومبر یا دسمبر والی قیمتوں میں دستیاب ہو گی۔ یقیناً ایسا کہنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ ویسے پاکستان تحریکِ انصاف میں سے کوئی دیوانہ یہ دعویٰ کر بھی سکتا ہے کیونکہ وزراء کے لیے یو ٹرن لینا کون سا مشکل کام ہے۔ وزیراعظم عمران خان اگر حقیقی معنوں میں چینی کی قیمتوں میں کمی چاہتے ہیں تو پھر انہیں حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو سننا ہو گا اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر عوام کو بوجھ اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ حکومت شوگر ملز مالکان اور گنے کے کاشتکاروں کے مابین تنازع سے الگ ہو چکی ہے اگر کاشتکار شوگر ملوں کو گنا مہنگا فروخت کریں گے تو پھر چینی کی قیمتیں کیسے نیچے آئیں گی۔ محترم وزیراعظم جو چینی ہم نے باہر سے منگوائی ہے اس میں مٹھاس مقامی چینی سے پچاس فیصد کم ہے اس تناسب سے اگر کسی کو پانچ کلو چینی کی ضرورت ہے تو کم مٹھاس کی وجہ سے امپورٹ کی گئی چینی دس کلو خریدنا پڑے گی یوں یہ تراسی یا پچاسی روپے والی چینی ایک سو پچیس روپے فی کلو میں پڑے گی اس لیے یہ کہنا حقائق کے منافی ہے کہ چینی کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ اور عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ یہ کم ہوتی قیمتیں نظریہ ضرورت کے تحت ہیں جب یہ ضرورت ختم ہو جائے گی چینی کی قیمتیں دوبارہ ویسے ہی پی ڈی ایم کی طرح بے قابو ہو جائیں گی۔ نا پی ڈی ایم حکومت کے قابو میں آ رہی ہے اور آئندہ برس چینی بھی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی طرح حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے نظر آئے گی۔
وزیراعظم عمران خان لاہور آئے تو ان کا سیاسی موقف بدلا بدلا محسوس ہوا ہے وہ ساری زندگی جس چیز کی نفی کرتے آئے ہیں اب سیاسی ضرورت سمجھ کر اس راستے پر چل رہے ہیں جس کا وہ ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم چودھری شجاعت کی عیادت کے لیے گئے اس سے پہلے وہ اپنے اتحادیوں سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ وہ لاہور صرف چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے ہی تشریف لائے تھے۔ بڑے چودھری صاحب ہماری سیاسی تاریخ کا خوش کن چہرہ ہیں۔ وہ ہمیشہ سیاسی طاقتوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ کبھی سیاسی ماحول کو آلودہ کرنے کی مہم کا حصہ نہیں بنے بلکہ ان کی کاوشوں سے آلودگی میں کمی ضرور ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا چودھری برادران کی طرف جانا یہ ثابت کرنا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اب سیاسی طور پر بہتر سنجیدہ طرز عمل اور سیاسی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دورہ لاہور کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی تھی کہ وہ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کا افتتاح کریں گے لیکن انہوں نے نامکمل تعمیر کی وجہ سے افتتاح کرنے سے انکار کر دیا۔ ویسے جس نے وزیراعظم عمران خان کو انڈر پاس کے افتتاح کا مشورہ دیا ہے اس اعلیٰ دماغ کو تو کم از کم چھ مہینوں تک معطل کر کے کمرے میں بند کر دینا چاہیے۔ کیا وزیراعظم اب ایک معمولی انڈر پاس کا افتتاح بھی خود کریں گے۔ اصولی طور پر تو میئر لاہور کو اس کا افتتاح کرنا چاہیے لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ یہ پاکستان تحریکِ انصاف کا لاہور میں پہلا ترقیاتی منصوبہ ہے اور ان کے پاس وزیراعظم کے علاوہ کوئی ایسا شخص بھی نہیں ہے جو ان کے ابتدائی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کر سکے۔
حکومت آئی ایم ایف سے پروگرام پر غور کر رہی ہے یعنی ایک مرتبہ پھر ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ وہ کبھی قرض نہیں لے گی لیکن ایک مرتبہ آئی ایم ایف سے گلے لگنے کے بعد دوسری مرتبہ گلے لگنے کی تیاری کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ماضی میں یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ ماضی میں آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے جانے کی وجہ سے مہنگائی ہوئی۔ اب اللہ کرے حکومت بروقت فیصلہ کرے تاکہ کسی قسم کی اضافی مہنگائی سے بچا جا سکے۔ یہ صورتحال ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے تو عوام سے وعدے کرتے وقت زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد انہیں اپنا موقف بدلنا پڑتا ہے اس طرز عمل سے ناصرف سیاسی عمل پر سوالات اٹھتے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی حیثیت بھی مشکوک ہوتی ہے۔ آج کی اپوزیشن بھی وعدوں میں تمام حدیں عبور کر رہی ہے انہیں بھی دیکھنا چاہیے کہ وعدے کرتے ہوئے زمینی حقائق نظر انداز نہ کریں تاکہ کل کلاں اگر وہ حکومت میں ہوں تو عوام کا وقت اس بحث میں ضائع نہ ہو کہ پہلے یہ ایسے کہتے تھے اب ایسے کہہ رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے علی موسی گیلانی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری کرونا احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی پر عمل میں آئی ہے۔ تیس نومبر کو ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہے اب حکومت کا امتحان ہے کہ کرونا کی شدید لہر میں وہ اس جلسے بارے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ جلسے پر بضد ہے۔ کرونا کے باعث اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ان حالات میں حکومت کو عوام کے جان و مال کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ اپوزیشن اپنی سرگرمیاں ضرور جاری رکھے لیکن عوام میں یہ تاثر تو نہ پھیلائے کہ کرونا نہیں ہے۔ ایک طرف وبا کی وجہ سے قیمتی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے تو دوسری طرف احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں یہ طرز عمل کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024