پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو رہنما حیثیت حاصل ہے اور ملکی امن کو قائم کرنے میں یہ تمام ادارے اپنی مخلصانہ کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک عظیم قومی خدمت سر انجام دے سکتے ہیں۔ طلبہ کی بہترین تعلیمی رہنمائی کے ساتھ ان کی کردار سازی بھی اعلیٰ تعلیم کے اہداف کا ماحصل ہے۔ انسانی ذہن کو اگر اوائل عمری میں تعلیم و تہذیب کی اعلیٰ روایات کے احیاءو تشکیل کی جانب مائل کر دیا جائے تو میرے خیال میں معاشرتی و سماجی امن و استحکام کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔ جس طرح فطرت خود لالہ کے پھول کی حنا بندی کرتے ہوئے اسے چشم انسانی کے لئے خوبصورت بنانے کا سامان کرتی ہے اسی طرح جامعات کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نونہالان قوم کو امنو آشتی کے اعلیٰ آدرشوں سے روشناس کرواتے ہوئے قومی سطح پر امن و امان کے قیام کی ذمہ داری کا فریضہ سنبھالیں اور اپنے فارغ التحصیل اور وزیر تعلیم طلبہ میں امن و برداشت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اپنا بہترین کردار نبھائیں۔
دور حاضر میں تعلیم و تدریس کے زاویہ¿ نظر میں اگرچہ جدت آ چکی ہے مگر انسانی ذہن کی ایک متوازن تشکیل جو کہ روز اول سے ہی تعلیم و تربیت کا خاصہ رہی ہے، جامعات کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ طلبہ کی نسل نو کو جدید علوم سے آراستہ کرتے ہوئے جب تک جامعات انکی ذہنی و کرداری پرورش میں خاطر خواہ حصہ نہیں لیتیں۔ ایک بہترین قوم کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا نا ممکن ہے۔ دور حاضر میں ملکی جامعات کی ذمہ داریاں پہلے سے کافی بڑھ چکی ہیں۔ ہمیں نہ صرف ملک و قوم کی ترقی کے لئے جدید سائنسی علوم پر مبنی ایک متوازن نظام تعلیم کی تشکیل میں حصہ لینا ہے بلکہ قومی کردار کو نبھاتے ہوئے طلبہ کی کردار سازی اور شخصیت سازی کا فریضہ بھی بدرجہ¿ اتم نبھانا ہے۔
ایک حالیہ جائزہ کے مطابق پاکستان بھر میں اس وقت تقریباً 183 یونیورسٹیاں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے 2 ملین کے قریب طلباءو طالبات کو علم و آگہی کے شعور سے مزین کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ تعلیم و تربیت اصلاً اصلاح معاشرہ کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے معاشرہ میں اجتماعی امن و برداشت کا سلیقہ پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی کردار سازی کے ذریعے ہی ہم مختلف شعبہ ہائے حیات میں اعلیٰ قیادت کی تشکیل و فروغ کا فریضہ دیانتداری سے نبھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
معاشرہ میں امن، برداشت، استحکام جیسے رویوں کو فروغ دینے کے لئے اگر یونیورسٹی سطح پر ہی بہتر اقدامات کا سہارا لیا جائے اور نوجوان طلبہ کے نوخیز ذہنوں کو توازن و برداشت کی اعلیٰ اقدار کا سبق سکھا دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبا و طالبات معاشرتی و سماجی سفیروں کا کردار ادا کرتے ہوئے وطن عزیز کے مختلف طبقات کے مابین ہم آہنگی کا وسیع تر وسیلہ بن جائیں۔وطن عزیز پاکستان کو اس وقت کئی سطحوں پر سیاسی، نسلی، سماجی، مذہبی اور فرقہ وارانہ کشمکش کا سامنا کرتے ہوئے اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں جامعات اپنی بہترین خدمات کو پیش کرتے ہوئے تحقیقی و تدریسی لحاظ سے کئی مسائل کا حل تلاش کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے بھی امن و استحکام کی از حد ضرورت ہے کیونکہ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے لئے جہاں بہت سی شرائط کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر ایک بنیادی شرط ملکی امن بھی ہے۔
جامعات کا فریضہ صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم کی فراہمی ہی نہیں بلکہ علمی و سماجی رہنمائی کے ذریعے طلبہ کی ایسی ذہن سازی ہے جو انہیں سماجی و معاشرتی شعور سے بہرہ ور کرتے ہوئے انہیں انسانیت کی خدمت کی جانب مائل کر دے۔ مختلف موضوعات پر مکالمہ و مباحثہ کا احیاءطبقاتی جنگ کو ختم کرنے اور دہشت گردی جیسے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ طلبہ کے نوخیز ذہنوں کو انسانیت کی بنیادی اقدار سے روشناس کرواتے ہوئے ہم ایک بہترین قومی خدمت سر انجام دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ ہم آہنگی، برداشت، توازن، طبقاتی مساوات، بہتر روزگار ایسے عناصر ہیں جو کسی بھی معاشرے کو جنت نظیر بنانے کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کا اولین فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے زبر تربیت متلاشیان علم یعنی طلبہ کو ان اعلیٰ سماجی اقدار سے روشناس کروانے کی از حد سعی کریں جو مستقبل میں ایک متوازن معاشرہ کی تشکیل کی خشت اول ثابت ہو۔ تشدد پسندی بیمار ذہنوں کی علامت ہے۔ اساتذہ اپنے طلبا و طالبات کے لئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ صرف اساتذہ ہی ہیں جو طلبہ کے لئے احترام انسانیت کا عملی نمونہ بن کر ان کے کردار و شخصیت میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
کسی بھی قوم کا ادب، انداز زندگی، طریقہ¿ معاشرت اور تعلیمی حالت اقوام عالم میں اس کی درجہ بندی کا سبب بنتے ہیں۔ جامعات کا سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے نونہالان قوم کو بہتر معیار زندگی کے لوازمات سے فیض یاب کریں۔ میرا ذاتی خیال ہے ملک عزیز کی معاصر سماجی و معاشرتی فضا کے پیش نظر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوان طلبہ کی ازسرنو ذہنی تشکیل کے لئے یونیورسٹی کورسز میں امن و استحکام اور سماجی و معاشرتی شعور بارے پروگراموں کو بھی سلیبس کا حصہ بناتے ہوئے قومی مسائل کا حل تلاش کرنے میں معاونت کریں۔ جامعات اصولاً کسی بھی سماج کے وہ رہنما ادارے ہیں جن میں ملک کی آئندہ قیادت کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ بحیثیت استاد میرا فریضہ ہے کہ میں اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں معاشرتی امن اور سماجی استحکام جیسے اعلیٰ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے مثالی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کروں تا کہ وہ نہ صرف اپنی زندگیاں سنوارنے کے قابل ہو سکیں بلکہ سماجی سفیر کی حیثیت سے اپنے ساتھی انسانوں کی زندگیوں کو بھی آسان بنانے کی کوشش کریں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024