سوہنی دھرتی پاکستان کا موسم اور سیاسی حالات جس تیز رفتاری کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اسی رفتار سے قوم میں مایوسی اور ملکی معیشت میں کمی واقع ہو رہی ہے 2014 میں تحریک انصاف کا دھرنا اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے مظاہروں نے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور ملک پاکستان کو پستی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ عمران خان کے دھرنے نے توجمہوریت کو سبوتاژ کرنے کا ایک کھلا پلان تیار کر رکھا تھا ملکی اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کبھی آئی جی پولیس کو دھمکیاں تو کبھی چیئرمین نادرا پر ذاتی حملے سے اداروں کو تباہ کرنے کی ایک سازش تیار کر رکھی تھی، چیئرمین نادرا یوسف مبین ایک تعلیم یافتہ نوجوان شریف النفس انسان جنہوں نے امریکہ سے گولڈ میڈل لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے خدمات سرانجام دیں گے لیکن افسوس چیئرمین نادرا کو کورٹس کچہری میں دھکیلا گیا سوشل میڈیا پر ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا محض اس لیے کہ وہ تحریک انصاف کی خواہش پر وہ پروف دیں جس سے انتخابات کو 35 پنکچروں کے ساتھ نتھی کیا جا سکے لیکن نوجوان چیئرمین نادرا نے اس وقت انصاف پر مبنی فیصلہ کیا کچہریوں اور کورٹس کے دن رات چکر لگائے لیکن حق اور سچ کا مقابلہ کرکے سرخرو ہوئے افسوس کہ آج بھی سوشل میڈیا پر ان کے خلاف تحریک انصاف کمر بستہ ہے کیونکہ تحریک انصاف چاہتی تھی کہ عدالتوں میں نادرا کی طرف سے 35 پنکچروں کے حوالے سے کوئی ثبوت ملے تاکہ حکومت کو گھر بھیجا جائے پھر بالکل اسی طرح پانامہ کیس شروع کر دیا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرتبہ حکومت کو سخت چیلنج کا سامنا ہے لیکن اگر یہ سوچ لیا جائے کہ حکومت ختم کر دی جائے گی تو یہ خام خیالی ہو گی کیونکہ حکومت کوئی موم کی گڑیا نہیں ہے۔ حکومت میں خرابیاں ضرور ہیں جو ہر حکومت میں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن حکومت اتنی کمزور نہیں کہ اسے آسانی سے گرا دیا جائے پانامہ فیصلے نے عوام بالخصوص اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ٹورسٹ اور سرمایہ کاروں کو خاصا مایوس کیا کیونکہ پانامہ کا فیصلہ اقامہ پر ختم کرکے عوام الناس کا وقت ضائع کیا گیا ہے عوام چاہتے تھے کہ اگر میاں محمد نوازشریف نے کوئی ملکی دولت لوٹی ہے تو اس کی معلومات سامنے لائی جائیں اور قرار واقعی سزا دی جائے لیکن حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے پوری قوم کو مایوس کر دیا۔ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو دی گئی سزا بھی معنی خیز ہے دراصل ہمارا ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس بارے میں صحیح غوروفکر نہیں ہو رہا اپوزیشن ملٹری آپریشن کا انتظار کر رہی ہے اس وقت حالات 1971 کی طرف جا رہے ہیں اور یہ حکومت گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ان سب کو حکومت میں آنے کا شوق ہے حکومت اچھی یا بری مگر حالات مشرقی پاکستان والے بنا دیئے گئے ہیں۔ 71ءمیں فوج دو ہزار میل دور لاوارث تھی مگر اب وہ اپنوں میں ہے۔ طالبان جو سب سے بڑے مکتی باہنی ہیں‘ امن کو تباہ کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو مین شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں ملک کے امن خوشحالی اور ترقی کی کسی کو پرواہ نہیں۔ مظاہرین حکومت کی نرمی اور وطن سے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں میاں محمد نواز شریف بے شک عدالتی فیصلے کے تحت آئین کی دفعہ62 کی بنیاد پر اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہوچکے ہیں تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ عدالتی فیصلہ عوام نے تسلیم نہیں کیا اور انہیں پارٹی کے اندر اور باہر بدستور عوامی مقبولیت حاصل ہے مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کے محض نام سے ہی منسوب نہیں بلکہ سیاست میں ان کے اختیار کیے گئے اصولوں کی بنیاد پر ہی متحرک ہے اور پارٹی کا سیاسی مستقبل بھی میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہی وابستہ ہے آپکی بحیثیت صدر نامزدگی پر سمندر پار پاکستانیوں نے جس جشن کا اہتمام کیا وہ دیدنی تھا میاں محمد نواز شریف کو پارٹی ہیڈ منتخب کرانے کے لئے متعلقہ قانون کی شق میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کرانا مسلم لیگ کا درست اقدام تھا جس سے فی الحقیقت سیاسی جماعتوں میں مائنس ون والا روشناس کرانے کا فارمولہ دم توڑ گیا جو غیر جمہوری عناصر کی ایک سازش تھی موجودہ حالات میں جمہوریت کو چلتے رہنا دیا جانا چائیے تاکہ بیرونی و اندرونی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے پاکستان ترقی کی طرف بڑھ رہا تھا دنیا پاکستان کی طرف بڑھ رہی تھی تاکہ سرمایہ کاری کی جا سکے لیکن یک دم بریک لگ گئی اب ایک مرتبہ پھر اسی ذوق شوق سے پاکستان کی ترقی کے لئے سلسلہ شروع کرنا ہوگا جہاں سے ٹوٹا تھا صحت مند سیاست سے ہی جمہوریت مخالف عناصر کی سازشوں کا توڑ کیا جا سکتا ہے اپوزیشن اداروں کو نشانہ نہ بنائیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ادارے ترقی کریں عوام کو ریلیف ملے اور خوشحال ہوں ایک بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کریں جمہوریت اور اداروں کو سبوثاژ نہ کریں اسی طرح پاکستان سلامت رہے گا اور ترقی کرے گا سمندر پار پاکستانی بیرون ممالک سر اٹھا کر چل سکیں گے اداروں کی تذلیل سے بیرونی سطح پر ہمارا اپنا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024