وفاقی دارالحکومت ایف نائن پارک میں اسلام آباد آرٹ گیلری کے باہر مرغا نما انسانوں کے ڈھیروں مجسمے پڑھے دکھائی دئے۔ جنھیں دور سے دیکھیں تو لگتا ہے سکول ماسٹر نے اپنے شاگردوں کو سزا کے طور پر مرغا بنا رکھا ہو لیکن جب قریب جا کر دیکھا تو ایسا نہیں تھا۔ وہیںکھڑے ایک شخص سے پوچھا یہ اتنے سارے مجسمے کس نے یہاں رکھیں ہیں؟ جواب ملا عبوری حکومت کے وزیر ثقافت نے جو خود مجسمہ ساز ہیں انہوں نے یہ بے شمار مرغا بنے انسان نما مجسمہ بنا کر پاکستانی عوام کی عکاسی کی جو ہر وقت اسی حالت میں رہتے ہیں۔ ایک اور قریب کھڑے شخص نے کہا سر ایسا نہیں ہے یہ غریب عوام نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی عکاسی ہے جو عوامی خدمت کرنے کے لیے وزیر بنتے ہیں پھر لوٹ مار کرتے ہیں۔ یہ جب اللہ کی عدالت میں پہنچے تو انہیں سزا کے طور پر مرغا بنا دیا گیا ان میں اکثر وہی وزرا ہیں جو چاروں صوبوں کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس وقت صحافی سراپا احتجاج ہیں۔تین روز قبل پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت کا قانون منظور کیا تھا۔ ہم بھی اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب پہنچے وہاں ایک قلم کار کو دیکھا جو چا ئے میں رس ڈبو کر کھا رہا تھا۔ میں اجنبی بن کر اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ جب یہ چائے سے فارغ ہوا تو تعارف کرایا ہم بھی کالم نگار ہیں۔ یہ پوچھنے یہاں حاضر ہوا ہوں کہ صحافی آجکل حکومت سے ناراض کیوں ہیں؟ کہا جس ملک میں خبر دباؤ کے تحت خبر روک دی جائے ، وہاں کبھی بھی عام صحافی کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ اسی ہفتے ایک جھگڑا میڈیا پر دیکھا گیا۔یہ جھگڑا ایک سیاسی ورکر اور خواجہ سرائوں کے درمیان تھا۔کہا جاتا اس سیاسی ورکر کے ساتھ دوسری بار کھسرے ان سے دست وگریباں ہوئے ہیں لیکن اس بار کسی کھسرے کے بلیڈ کے چل جانے سے یہ زخمی بھی ہوچکے ہیں۔اللہ جلد صحت یابی کرے۔یاد رہے اس سے پہلے ان کے لیڈر بھی حملے میں زخمی ہوئے تھے اس کے بعد کہا جاتا ہے چند نالائق ڈاکٹروں نے ان کی ایک ٹانگ پر پلستر لگا دیا جب کہ پلستر اس وقت لگایا جاتا ہے جب ٹانک یا بازوں کی ہڈی ٹوٹے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پلستر پر مریض خارش نہیں کرتا۔ اگر مریض پلستر پرخارش کرے تو سمجھ جائیں ڈاکٹر نے پلستر مریض کی خواہش پر لگا رکھا ہے۔یہ بھی سچ ہے لیڈر جو کچھ کرتا ہے اس کے ورکر بھی اپنے لیڈر کی کاپی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کھسرے کے حملے سے زخم چہرے پر اسپتال آیا لیکن اپنے لیڈر کی طرح ویل چیئر کا استعمال کرتے ہوئے گھر گئے۔اب تو کھسروں کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ یہ خوشیوں میں ڈانس کرنے آئے ہیں یا جھگڑا کرنے … اس واقعہ سے کھسروں کے معاشی حالات مزید خراب ہونگے۔ویسے ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ کیا یہ کھسرے ہی تھے یا خواجہ سراکے روپ میں کوئی اور۔ اس واقعہ کے بعد نوکر آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ہماری بیگم صاحبہ نے ہمارے صاحب کو کہہ دیا ہے اگر تم نے اب چوں چراں کی تو میں تم پر کھسرے چھوڑوں گی۔اب میرے صاحب ڈرے ڈرے سے ہیں دوسرے نے کہا یار یہ بتاؤ ٹی وی پر فصلیں تباہ کرنے والی امریکن سنڈی کے خاتمے کیلئے سپرے کا بتایا کرتے تھے مگر ملک کو تباہ کرنے والے سانڈ کے خاتمے کا سپرے کیوں متعارف نہیں کراتے۔ اس پر دوست نے کہا اس لیے کہ جب ایسے منسٹر کھیلوں کے لگائیں گے جو فٹبال کا میچ دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ دو کھلاڑی مجھے بلکل پسند نہیں۔ انہیں کھیل سے فوری باہر کیا جائے۔ بس بھاگتے رہتے ہیں مگر فٹبال کو ٹچ نہیں کرتے۔ یہ سن کر ساتھ کھڑے ساتھی نے وزیر صاحب کے کان میں بتایا کہ سر یہ میچ کے ریفری ہوتے ہیں۔ یہ کھیلتے نہیں میچ کو دیکھتے ہیں کہ کوئی کھلاڑی غلط نہ کھیلیں۔بعد میں بتا چلا یہ صاحب وہی ہیں جو فٹبال کے ایک میچ میں وزیر بنے سے پہلے مہمان خصوصی کے طور پر آئیتھے۔ میچ کے اختتام پر ان صاحب نے کھلاڑیوں سے وعدہ کیا تھا اگر میں وزیر بنا تو ہر کھلاڑی کو اس کا اپنا فٹبال دونگا۔ تاکہ ہر کھلاڑی اپنے فٹبال سے کھیلا کرے دوسرے سے نہ چھینا کرے۔ آج جب میچ شروع ہوا تو اس وزیر کواپنا وعدہ یاد آرہا تھا اسے ڈر تھا کہ اسے اج اپنا کیاگیا وعدہ انہیں یاد نہ آجائے۔سوچیں اگر ہر ادارے پر ایسے ہی لوگ ہونگے تو کیا کیا گل کھلاتے ہونگے۔ چند دوست اکھٹے بیٹھے چائے نہیں کافی نہیں پانی پی رہے تھے جب کہ ان کی پنشن لاکھوں میں ہے لیکن نہایت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہی کا ایک ساتھی کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ دوست نے پوچھا کیا ہوا ہے کہا خط لیٹر بکس ڈالنے گیا تھا لیٹر بکس پہلے سے بھرا ہوا تھا میں نے ہاتھ اندر ڈال کر پہلے سے موجود میل کو دبا کر ہاتھ جب باہر نکالا تو ہاتھ زخمی ہو گیا۔ دوسرے دوست نے کہا یہ کانچ کی چوڑی سے زخمی ہوا لگتا ہے۔ یہ سن کر زخمی دوست شرما گیا۔ جس پر دوسرے دوست نے موضوع بدلتے ہوئے ساتھی سے کہا ڈیر کوئی انمول موتی تو بکھرو۔ کہا چپ سے بڑی بددعا کوئی نہیں ہوتی۔ جب مظلوم بندہ بولتا ہے تو قدرت خاموش رہتی ہے اور جب مظلوم بندہ کو عدالت خاموش کرا دیتی ہے تو پھر قدرت انتقام لیتی ہے اور قدرت کا انتقام بہت برا ہوتا ہے۔ 19مئی 2024کوایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی فضائی حادثے میں اللہ کو پیارے ہو ئے۔ کہا جاتا ہے ایران کے یہ پراسیکیوٹر جنرل اور جج بھی رہ چکے تھے۔علمی ادبی شخصیت کے مالک تھے۔جس گھر رہائشی پذیر تھے یہ 45 کنال نہیں صرف 45 گز پر بنا ہوا ہے۔ اسی گھر میں رہ کرصدارتی الیکشن جیتا۔ نہایت سادہ زندگی گزاری۔ جب پانچ سال کی عمر میں تھے تو والد کا سایہ جاتا رہا۔ والدہ نے تعلیم و تربیت کی۔ بیس سال کی عمر میں پراسیکیوٹر بنے۔ ایرانی قوم کے دلیر نڈر بے باک لیڈر تھے۔یہ واحد اسلامی سربراہ تھے جنھوں نے فلسطین اسرائیل کی موجودہ جنگ میں اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے۔پاکستان کے مخلص ساتھی تھے،حال ہی میں ان کا پاکستان کا یادگار دورہ کیا جو سب کو ہمیشہ یاد رہے گا۔