معاشی اہداف پورے نہ ہوسکے
حکمران اتحاد مسلسل دعوے کررہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا لیکن اس وقت جو حالات ہیں ان کی وجہ سے عام آدمی ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔ اس سب کے باوجود وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایف بی آر میں کاروباری شخصیات کے ساتھ آئندہ مالی کی بجٹ تجاویز کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو چیلنجز کا سامنا ہے، مل کر مسائل کا حل نکالیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی بینکوں نے 2ارب ڈالر ہمیں واپس کردیے اور ہم نے ساڑھے 5ارب ڈالر کمرشل بینکوں کو واپس کیے۔ ڈار صاحب اعدد و شمار سے کھیلنا تو خوب جانتے ہیں لیکن صورتحال کتنی گھمبیر ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں مالی سال کے معاشی اہداف کی رپورٹ یہ بتارہی ہے کہ کوئی بھی معاشی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ شرح نمو 5 فیصد کی بجائے صفر اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔ رپورٹ کے مطابق، صنعتی شرح نمو کا ہدف 7.1 فیصد تھا جو منفی8.11 فیصد تک گرگئی۔ سیلاب اور ڈالرکے بڑھتے ایکسچینج ریٹ نے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو نقصان پہنچایا۔ عوام کے لیے پہلے ہی پریشانیاں کم نہیں تھیں اور اب نیپرا نے مزید ستم ڈھاتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں 1روپے 25 پیسے فی یونٹ اضافے کی ابتدائی منظوری دیدی ہے۔ صارفین سے 46ارب روپے کی اضافی وصولیاں کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ جنوری سے مارچ تک کی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہوگا جبکہ اس اضافے کا اطلاق رواں سال جون سے ستمبر تک ہوگا۔ حکومت جس طرح عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ ڈالتی جارہی ہے اس سے ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں کیونکہ مہنگائی کا بدلہ لینے کا عوام کے پاس تو ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انتخابات میں بیلٹ کے ذریعے وہ اپنی ناراضی کا اظہار کریں۔