دہشت گردی اور سبوتاژ میں فرق 

گزشتہ صدی کی تاریخ میں سبوتاژ کی اصطلاح پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکہ میں اسلحہ ساز کارخانوں اورجرمنی کے خلاف اتحادی افواج کوامریکہ کی طرف سے اسلحہ اور خوراک کی ترسیل کے نظام پر حملوں کیلئے استعمال ہوئی ۔ ا س طرح کے حملوں میں جانی نقصان نہ ہونے کے برابر جبکہ بڑے پیمانے پر گولہ بارود کی تباہی کی صور ت میں ضرورسامنے آتا ہے ۔علاوہ ازیں جرمنی سے ملحقہ مغربی ممالک میں  ٹیلی فون کی تاروں کو کاٹنے کے علاوہ اتحادی افواج کے ان مراکز کو نشانہ بنایا جاتا جہاں سے مواصلاتی نظام کے چلائے جانے کا شک ہوتا۔ اتحادی افواج کیلئے سپلائی کیا جانے والا پانی زیرِ آلودہ کردیا جاتایا اس میں اس طرح کا وائرس شامل کردیا جاتا جو اتحادی فوجیوں کو خارش اور دیگر جلدی بیماریوں میں مبتلا کرتا۔ امریکہ معیشت کو کمزور کرنے کیلئے جرمنی کے تربیت یافتہ ایجنٹ امریکہ سے یورپ جانے والے تجارتی بحری جہازوں کو بھی نشانہ بناتے۔ اس طرح کا بڑا واقع 30جولائی 1916ء کو نیو یارک کی بندر گاہ سے جڑے ہوئے گودام میں دھماکہ کی صورت رونما ہوا جس میں پور ا گودام جل کر راکھ ہوگیا اور قریب ہی گہرے سمندر میں لنگر انداز امریکی ساختہ مال سے لدے مال بردار بحری جہاز بھی اس آگ کی زد میں آکر تباہ ہوگئے ۔ جس کے بعد کئی ماہ تک امریکہ کی مغربی ممالک سے تجارت بند رہی ۔ اس تباہی پر صرف گودام میں موجود سامان اور تجارت کا تخمینہ 20ملین ڈالر لگایا گیا تھا ۔ چند ماہ بعد جنوری 1917میں نیو یارک کے مضافات میں ــــ’’کنگز لینڈ ایمونیشن فیکٹری‘‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔ فیکٹری میں اس وقت 13لاکھ توپ کے گولے اتحادی افواج کو بھیجنے کیلئے تیار تھے یہ سب تباہ ہوگئے ۔ صرف 2ماہ بعد نیو یارک کی میری لینڈ بندر گاہ پر جرمنی کے ایجنٹوں نے گولہ بارود سے بھرے ہوئے بحری جہاز کو اڑادیا ۔ مندرجہ بالا دونوں سبوتاژ قرارد یئے گئے واقعات میں صرف 6افراد ہلاک ہوئے۔ 
دوسری جنگ عظیم تک امریکی دفاعی مورخین کے مطابق جرمنی نے سبوتاژ کی کاروائیوں میں جدت اور مزید وسعت لانے کی خاطر باقاعدہ تربیتی سکول قائم کرلیے۔ یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے جرمن ایجنٹوں نے اتحادی افواج کی جنگلی استعداد کو طویل عرصہ تک کمزور کیے رکھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے خفیہ اداروں کیلئے سب سے مشکل مرحلہ ان ایجنٹوں کی تلاش تھا جو مغربی ملکوں  ہی کے باشندے تھے۔ ان ایجنٹوں کو تربیت دی گئی تھی کہ اتحادی افواج کے خلاف سبو تاژ کی کاروائیوں کے دوران جنگ کے نظام کو کمزور اور امریکہ کو اتحادی افواج کی مدد سے روکنے کیلئے کئے جانے والے حملوں میں افرادی قوت کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے ۔ تاکہ امریکی اور اتحادی ممالک کے خفیہ ادارے بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے مشتعل ہوکر اپنی ساری توجہ سبوتاژ میں ملوث ایجنٹوں کی تلاش پر مرکوز نہ کردیں ۔جرمنی کے جواب میں امریکہ اور اتحادی افواج نے بھی جرمنی کے اندر سڑکوں ، ریلوے ، مواصلاتی نظام اور جرمن فوج کے اسلحہ و گولہ بارود کو نشانہ بنانے کیلئے سبو تاژ کاروائیوں کا آغا ز کیا جو خاصا موثر ثابت ہوا ۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد دنیا کے دیگر بہت سے ممالک نے اپنے دشمن یا مخالف ملک کوکمزور کرنے اور ان کے فوجی ٹھکانوں پر سبو تاژ حملوں کے ذریعے فوجیوں کو اعصابی طور پر بے حال کرنے کی پالیساں اختیار کیں۔ جس میں دشمن ممالک کے باشندوں کے ساتھ دوستانہ مراسم بڑھا کر انہیں اپنی فوج کے اندر ریاست مخالف جذبات ابھار کراپنے ملک کے خلاف کام کرنے پر راضی کرنے جیسے عوامل شامل تھے۔
اس کے برعکس دہشت گردی کے حوالے سے مغربی مورخین اور دفاعی تجزیہ نگار متضاد اور ایک دوسرے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کچھ اس کے ابتدا پہلی عیسوی صدی میں بعض ریاستوں کی طرف سے اُن کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے بروئے کار لائے گئے پر تشدد واقعات سے جوڑتے ہیں جس میں بڑے پیمانے پر انسانی اموات ہوئیں۔ بعض 17 ویں صدی سے اس کی ابتداء دیکھتے ہیں تو کچھ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک خلافت کے خاتمہ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی چند عرب ریاستوں اور اسرائیل کے قیام کے بعد یہودیوں کی طرف سے فلسطینیوں کو بے گھر اور بے وطن کرنے جیسی کارروائیوں کے ردعمل میں فلسطینیوں کی مزاحمت اور اس کے جواب میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو جدید دور میں موجود دہشت گردی کی ابتدائی شکل قرار دیتے ہیں تو بعض آئر لینڈ کی تاج برطانیہ سے آزادی کے لئے وہاں وجود میں آنے والے دو علیحدگی پسند گروہوں کی طرف سے عوامی سطح پر کیے جانے والے تباہ کن دھماکوں کوجدید دہشت گردی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تاہم اس نقطے پر اکثریت متفق ہے کہ سبوتاژ جیسی کارروائیاں ریاست کو کمزور کرکے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بروئے کار لائی جاتی ہیں جس میں عوام الناس نشانہ نہیں ہوتے نہ ہی بم دھماکے اور قتل و غارت جیسی کارروائیاں اس کا حصہ رہی ہیں۔ دشمن ملک کی سلامتی کو کمزور کرناسبوتاژکا بنیادی مقصد بتایا جاتا ہے جس میںاس ملک کی معیشت کو کمزور کرنا بھی اس کا جزو ہے۔ اس کے برعکس دہشت گردی ہدف شدہ ریاست میں عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچا کرخوف اور دہشت کے عالم میں عوام کے ریاست پر اعتماد کو ختم کرنا دہشت گردوں کا بنیادی مقصد قرار دیا جاتا ہے۔
ان معاملات کو اگر ہم پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو پاکستان نصف صدی سے بھارت اور اس کی اتحادی پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے مسلسل بم دھماکوں کا شکار چلا آرہا ہے۔ 1977 ء میں سویت سرخ افواج کے افغانستان پر قبضہ کے بعد کی پاکستان میں کراچی سے لے کر پشاور تک بم دھماکوں کی ایک پوری تاریخ ہے جس پر کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ یہاں صرف 14 جولائی 1987 ء کو کراچی کے بوہری بازار میں دو عدد کاروں میں نصب ٹائم بموں سے کیے گئے دھماکوں کا ذکر کافی ہے جس نے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کی وجہ سے پورے ملک کو سوگ میں ڈبو دیا ۔ بعد ازاں 2001 ء میں امریکی و اتحادی افواج کے افغانستان پر قبضہ کے نتیجہ میں پاکستان پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی جنگ نے تو وطن عزیز میں 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان لے لی۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں یہ جنگ ابھی تک جاری ہے کہ حالیہ سیاسی کشیدگی کی آڑ میںانتہائی افسوس ناک واقع سامنے آیا جس میں عوام الناس کو اپنی ہی سلامتی پر معمور افواج کے سامنے لا کھڑا کیاگیاہے۔ 9 مئی 2023 ء کو جو کچھ ہوا، جس طرح اہم فوجی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا یا چھائونی میں شہداء کی یادگار وںپرتباہی مچاکر اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ کیونکہ اس کے لئے ان کم نو عمر نوجوانوں کی اکثریت استعمال ہوئی جو شاید اپنی ذہنی استعداد کے حوالے سے ان شہداء کے نام، ان کی مادروطن کیلئے قربانیوں اورملک کی سلامتی کے لئے سرانجام دیئے گئے ان کے کارناموں سے بھی واقف نہیں ہوگی ۔ یہ نوجوان نسل اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں ہوگی کہ وہ سب اپنے سیاسی لیڈر کی عقیدت میں مبتلا ہو کر سبوتاژ جیسی سنگین کارروائیوں کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ پاکستانی عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ 9مئی 2023ء کوہمارے یہ نوجوان عظیم شہداء کی یادگاریوں پر نہیں بلکہ ریاست پر حملے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن