
دورانِ تدریس کلاس میں شاعری اوردیگرفنونِ لطیفہ کی اہمیت وضرورت پرمکالمہ ہورہاتھا۔ ایک طالبہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ یہ چیزیں تومذہبی اورسماجی طورپرغیرضروری ہیں اوران کا عملِ خیرکے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ایک کلاس روم میں متنوع اندازمیں سوچنے والے طلبہ وطالبات ہوتے ہیں،ان کا سماجی اورتعلیمی پس منظربھی جداجداہوتا ہے،مکالمے کی فضا خوشگوار ہوتو اس سے بہت سے خوب صورت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں،افسوس کہ ہم نے گزشتہ تین دہائیوں میں اپنے مہمان خانوںاورریستورانوں میں شعوری طور پرمکالمے کی اس فضا کوختم کیا ہے۔ہرشے میں خیراورشرکے پہلوموجودہوتے ہیں۔ہم اشیاکی ماہیت پہ غورنہیں کرتے،اگر کبھی کریں بھی توہمارا مطالعہ یک رخا ہوتاہے۔شاعری پراعتراضات کی بنیادی وجہ شعراکے عمومی رویے ہیں،کسی کی تعریف کی توغلوسے کام لیتے ہوئے اسے اوج ثریاتک پہنچا دیا،ناراض ہوئے تو تحت الثریٰ میں جاگرایا۔اسلام اوردیگر مذاہب میں الشعرمن الحکمہ کے قول کے مطابق حکمت اوردانائی کی بات کوکبھی بھی ثانوی حیثیت نہیں دی گئی۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین مکہ کے مقابلے میں ہمیشہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شاعری کوسراہا،حضرت خنساء کے مرثیے سن کاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکراپنا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘پیش کیا ،اس کی باقاعدہ اصلاح کی گئی۔بعثت کے بعد جاہلی شاعری کا رواج ختم ہوا، تمام شعراکی تعریف وتوصیف کامرکز نعت رسول بنی،اس کیلئے باقاعدہ طورپر محضرم کی اصطلاح وجود میں آئی۔اگرکہیں ایسا شعر ملے جوقاری کی انا اور استغنا کو دربدرکیے بغیر’’یک درگیرومحکم بگیر‘‘کی کیفیت سے سرشار کردے تو سمجھیے کسی عاشق نے منزل مراد پالی، تاریخ نے یہ وقت بھی دیکھاجب سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر عربی ادب کا مقصد ومحور بن گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کی شاعری کا عنوان بنے۔وحی کی آمدکا تخصص حاصل ہونے کے باعث شاعری اور اس نوع کے دیگر انسانی علوم آپ کے نزدیک ہیچ ترین تھے۔یوں بھی مستغنی حسن کا ورود انسان اور کائنات کی ذیلی چیزوں کی تعریف و توجہ کا محتاج نہیںہوتا۔
ہمارے ہاں سخنوری اب علم ودانش کی گفتگو کی بجائے سٹیج پرپرفارم کرنے کانام ہے،آپ نے سوشل میڈیاپر مختلف اقسام کے اداکار، بھانڈ اورمیراثی دیکھے ہونگے جن کی بھاری بھرکم ایکٹنگ کے اندر سے شعر یت کی ایک چھٹانک بھی برآمدنہیں ہوتی۔اچھے خاصے معتبرنظرآنے والے لوگ ان کی سطحی شاعری سن کرجھوم رہے ہوتے ہیں۔ایسے لوگ ہردورمیں رہے ہیں لیکن پاک وہندکی شعری روایت توبزرگان دین کی شاعری سے آغازہوئی،جس کوانھوںنے اپنے پیغام کے فروغ کا ذریعہ بنایا،خودہمارے ہاں پچھلی چنددہائیوں میں صنف نعت کے حوالے سے کیسے کیسے گوہرآبدار منظرعام پرآئے،برصغیرمیں گلبرگہ شریف (دکن)کے صاحب طریقت بزرگ حضرت سید محمد حسینی گیسو دراز المعروف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ کی نعتیہ شاعری کا ذکر ضروری ہے۔آپ شہباز تخلص کرتے تھے۔خواجہ موصوف کی زندگی میں عشق رسول ﷺ کا اثر ونفوذ اس قدر تھا کہ نزع کے عالم میں جب ان سے پوچھا گیا ’’زندگی بہتر ہے یا موت؟‘‘ آپ نے آنکھیں کھولیں اور نقاہت بھرے لہجے میں گویا ہوئے’’آپ ﷺ کے زمانے میں زندگی افضل تھی اور آپ کے وصال کے بعد موت‘‘۔خواجہ گیسو دراز کے اس عشق جنوں پیشہ کے اثرات شہر اقبال و فیض سیالکوٹ تک پہنچے۔ پروفیسر سید ریاض حسین زیدی سادات گیسو دراز میں سے ہیں،ان کے خانوادے میں سیدنفیس الحسینی ،سید منظورالکونین، صاحب زادہ افتخارالحسن شاہ اور ڈاکٹراحسن زیدی جیسے باکمال ہستیاں شامل ہیں۔زیدی صاحب گزشتہ تین دہائیوں سے نعت شریف کی صنف کو محبوب رکھے ہوئے ہیں،ان خدمات کے صلے میں انھیں صدارتی ایوارڈسے بھی نوازاگیاہے لیکن ان کااصل انعام تواس ذات گرامی کی مدح سرائی ہے جو محبوب خداہے۔
ہمیںاپنے دور طالب علمی میں پروفیسر ریاض حسین زیدی کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔اس زمانے میں ان کا کلین شیوڈ چہرہ ،سفید شلوار قمیص اور اس پر مستزاد سیاہ واسکٹ آپ کے رند پارسا ہونے کا غماز تھا۔
سیدریاض حسین زیدی کی نعتیہ کائنات فنی محاسن وخصائص کی آئینہ دار ہے۔اس کے متنوع مضامین سید صاحب کو ان کے معاصر نعت گوشعرا سے منفرد کرتے ہیں۔موجودہ اجتماعی احوال نعت اور عصریت کے تناظرمیں آپ خالص آشوب نگاری کی بجائے عزم وہمت اور بلند حوصلگی کے مضامین لے کر آتے ہیں۔بعض جگہ تو یہ نعت مولانا الطاف حسین حالی کی ’’اے خاصہ خاصان رسل ۔۔۔‘‘اور علامہ محمداقبال کی ’’شیرازہ جو ہوا امت مرحوم کا ابتر‘‘ کی فکری توسیع بن جاتی ہے۔ایسی مثالیں ہمارے نعتیہ ادب میں خاصی کم یاب ہیں۔سید ریاض حسین زیدی کے استغاثے میں محض رنج ومحن ہی نہیں بلکہ سیرت صادقہ سے شجاعت کشید کرنے کی دعوت بھی ملتی ہے۔زیدی صاحب کی شاعری کے مفہوم ومعانی کا یہ سفر قاری کو ایک ایسے شہر طلسمات میں لے جاتا ہے جس میں داخل ہونے کے تو کئی رستے ہیں لیکن وہاں سے لوٹنا محال ہے۔نورونکہت کے اس طلسم ہوش ربا کی ایک ایک عمارت ہر گھڑی درود وسلام کا ورد کرتی ہے۔اس وضع کے کئی رنگ مختلف زاویوں سے سید ریاض حسین زیدی کی نعت میں کارفرما دکھائی دیتے ہیں،ان کا ایک شعر دیکھیے:
ہرسمت مرے پھیل گیانورکاہالہ
سوجان سے پیاراہے مجھے ذکرشہ والا
٭…٭…٭