
پاکستان جلد ہی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائیگا ۔ یہ وہ خواب ہے جو ہر پاکستانی نے اپنی آنکھوں کی شدید مشقت سے پورا کرنے کی کوشش کی ۔ کہیں نہ کہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔ پاکستان ترقی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے ملک میں معاشی خوشحالی سے بیرونی سرمایہ کار اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے پر تیار ۔ ایسے اعلانا ت ہر دور میں عوام نے سُنے ۔ یقین کر لیا ۔ کچھ شعبوں میں کام ہوتے دِکھائی بھی دئیے مگر اب ہماری تصویر کہاں جا کر ٹھہرے گی ؟ ضد۔ انتقام اور سیاست نے تو ہم کو پُورا کھا لیا ہے ’’80سال‘‘ ہو گئے پاکستان کو منصئہ شہود پر آئے ۔ غور طلب سوالات ہیں اور سوال تو یقینا ا‘ٹھتے ہیں کہ گزرے سالوں میں پاکستان کا سفر کہاں سے اور کن حالات میں شروع ہوا تو وہیں سوال اُٹھتا ہے کہ تب کے لیڈرز کا سفر زندگی کے آرام و آسائش کے کِس مرحلے سے شروع ہوا اور اب ؟؟ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ۔ رقبہ کے لحاظ سے وسائل کے لحاظ سے زرخیز زمین ۔ چار خوبصورت موسم ۔ چپے چپے پر گھڑی گھڑائی جنتیں ۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ خالی چٹیل رتیلے میدانوں کو ہیرے جواہرات کے بھاؤ بیچنے والے اب ’’خلائ‘‘ کو تسخیر کر رہے ہیں ایک وقت میں تقریباً دنیا کی مدد کرنے والا اب ہاتھوں میں کشکول لیے پھر رہا ہے۔ سیاستدان لارڈز بن گئے ۔ تاجر۔ صنعت کار ’’کارٹلز‘‘ بن گئے اور پاکستان ؟؟
’’عوام سے نچوڑ کر عوام کو خیرات‘‘
الحمد اللہ رمضان کریم خیریت سے گزر گیا اور اپنے پیچھے سخاوت ۔ دریا دلی کی مثالیں چھوڑ گیا وہاں ہمیشہ کی طرح ہوس۔ منافع خوری ۔ ذخیرہ اندوزی کی بھی کہانیاں بیان کر گیا ۔ جگہ جگہ دسترخوان ۔ پانی ۔ شربت کی سبیلیں ۔ تعلیمی ادارے ۔ یتیم خانے ۔ فلاحی ہسپتال ۔ جواب نہیں ہماری قوم کا خیرات تقسیم کرنے کا جذبہ۔ لگانے والے منافع کمانے والے۔ کھانے والے غریب عوام ۔ لگانے والے کون؟ بے انتہا منافع کی بدولت اپنی دنیا کو سجانے والے امیر کبیر خاندان ۔ ہول سیل مارکیٹوں کے تاجر ۔ آسمان کو چھوتے پلازوں کے مالک ۔ 24گھنٹے دُھواں چھوڑتی فیکٹریوں کے صنعت کار۔ خیراتی دستر خوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ کھانے والے لگانے والوں کا سامان خرید خرید کر خیراتی کھانے تک آ پہنچے ہیں قسمت کا اُلٹ پھیر یا پھر مسلمانوں کی روایتی طمع ۔ اپنوں سے مقابلہ ۔’’ عید ۔ تہواروں‘‘ کو حد سے بڑھ کر دولت اکٹھی کرنے کی ہوس نا تمام ۔ درجن ہا مرتبہ لکھ چکی ہوں بہترین سلوک کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہر شخص اپنی مصنوعہ چیزوں کی قیمتیں کم کر دے ۔ سوچئیے اگر ایک شخص اپنی بنائی چیز مہنگی کرتا ہے تو وہ بدلہ میں بازار سے دوسرے کی مہنگی کردہ چیز خریدتا بھی تو ہے۔ یہ کیا رجحان ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ہی مصنوعی قلت ۔ شارٹ فال ۔ مہنگائی کے نام پر چُونا لگارہے ہیں ۔ ’’اربوں روپے‘‘ بانٹنے کی روایت ۔ جذبہ قابل پزیرائی ہے ہر بہترین رویہ یہی ہے کہ اپنے ہم وطنوں کو ایک دوسرے کی جعل سازی ۔ مہنگائی سے محفوظ رکھا جائے ۔ اپنی مصنوعہ چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دی جائے ۔
مہنگائی ایسا لفظ ہے کہ بولنے سے ہی اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں ۔ تقریبا% 50 پر پہنچ چکی ہے ۔ بقول ادارہ شماریات’’ 47.23’’۔ دوسری طرف اکانومی واچ نے مہنگائی ’’3‘‘ ہندسے تک جانے کا کہتے ہوئے وارننگ دیدی ہے کہ پاکستان دنیا کا چھٹا مہنگا ترین ملک بن جائے گا اگر ایسا ہو گیا تو پھر واقعی ’’سری لنکا‘‘ ہم سے زیادہ دُور نہیں ۔ پاکستان معاشی تباہی کے اثرات سے نکل رہا ہے’’ حکومتی وزیر‘‘ ۔ دوسری طرف پاکستان میں کھانے پینے کی اشیاء مسلسل مہنگی ۔ عوام کی قوت خرید ’’38 فیصد‘‘ کم ہوگئی ’’عالمی بینک‘‘ ۔صوبہ سرحد کی کابینہ کا عید سے قبل تنخواہیں نہ دینے کا فیصلہ پہلی خبر کے ساتھ پڑھا تھا وجہ مالی مشکلات۔ خریف سیزن پانی کا شارٹ فال 27فیصد تک پہنچ گیا تھا ۔ طوفانی بارشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ۔ افسوس ہمیشہ کی طرح لاکھوں ایکڑ ملین پانی ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی ذخائر ہی نہیں ۔ جو تھے وہ بھی اتنے ناقص کہ پچھلے سیلاب نے تمام ترقیاتی کاموں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ کاش اتنا معیار رکھ دیتے کہ بھرم رہ جاتا۔ بھرم تو ضرور رہنا چاہیے اگر ایک دفعہ ٹوٹ جائے تو پھر سارے ڈر خوف ختم ہو جاتے ہیں۔ انسان بے نقاب ہو جاتا ہے انسان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے عوام سے کِس کو کتنی محبت تھی اور ہے اُس کو آشکار کرنے کے لیے ایک معمولی بارش ہی کافی ہے کہ یکدم سینکڑوں فیڈرز ٹرپ کر جاتے ہیں وجہ ؟ کیونکہ مضبوطی کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاتا۔ استحکام کی خواہش ہی کوئی نہیں رکھتا ۔ ایسے ہی جیسے چند افراد کا گروہ لمحوں میں پورے شہر کو بلاک کر دیتا ہے ۔ تفرقہ بازی۔ جتھ سازی یہ ہے ہماری موجودہ تصویر ۔ ’’ہم نے چاند پر کہاں جانا ہے‘‘۔
قارئین ۔ ہر چیز ہی شارٹ ۔ ’’40سالوں‘‘ سے ’’سرپلس‘‘ صرف اشرافیہ رہی ۔ ملازمت` کاروبار` حتیٰ کہ ’’ایمان‘‘ تک میں ہم شارٹ فال کا شکار ہو چکے ہیں ۔ ژالہ باری، بارشوں سے گندم کے ہدف میں چار سے 5ملین ٹن کمی کا امکان تھا ۔ گندم کی پیداوار تو اچھی ہوگئی پر ’’آٹا‘‘ آسمان سے اُترنے پر راضی نہیں کیونکہ ڈور ’’مافیا‘‘ کے ہاتھوں میں ہے وہ مافیا جن کی زبانیں تو عوامی درد میں بولتی ہیں مگر ہاتھ ’’عوامی جیبوں‘‘ پر ہیں ۔ آسمانی آفتوں کے متعلق تو تمام ارضی حکمران بے بس ہیں کچھ بھی پیش بندی ممکن نہیں پچھلے کافی سالوں سے امریکہ ۔ یورپ اب برصغیر میں پے در پے آنے والے سیلاب۔ زلزلے ہیں مگر جو زمینی آفات ہیں وہ تو سراسر ہماری اپنی کوتاہیوں کی پیداوار ہیں کوئی ایک ہو تو نام لکھوں نہ ہمارے دلوں میں اتنا رحم ہے کہ اپنی مصنوعہ چیزوں کے دام گھٹا دیں نہ ہمارے پاس ایمان کی وہ قوت ہے کہ خود پر بھروسہ کریں قرضہ جات سے جان چُھڑا لیں۔ سب سے بڑھ کر نہ ہی ہم اتنے دیانتدار ۔ صاف گو ہیں کہ ’’دیانتدار طبقہ‘‘ کو ووٹ دے سکیں سب سے بڑی ہماری اپنی کھڑی کردہ بدترین زمینی آفت ؟؟سچ دب گیا ۔ جھوٹ پھیل گیا ۔ حلال حرام کی تمیز مٹ گئی۔یہ سب آفات ہماری اپنی ساختہ ہیں ہم خود متذکرہ وباؤں کے پرورش کنندہ ہیں۔ چاہیے کہ اب بھی رُک جائیں۔ سیدھے راستے پر آ جائیں تاکہ آگے بڑھنے کی کوئی سبیل پیدا ہو۔
٭…٭…٭