ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ملے تو یہ اچھی خبر ہی کہلائے گی بھلے ہی یہ کتنی ننھی منی سی کیوں نہ ہو۔ مطلب یہ کہ اچھی خبر بہرحال اچھی خبر ہے، چاہے وہ ذرا سی ہو یا ذرا سے کچھ بڑی ہو۔ چنانچہ بری خبروں کے گھیرے میں آئے ہوئے پاکستان کیلئے بھی ایک ذرا سی اچھی خبر آ گئی ہے۔ پاکستان کے سر پر دیوالیہ پن کا پہاڑ معلق ہے (ایک پہاڑ بنی اسرائیل پر بھی معلق کیا گیا تھا، پھر بلا ٹل گئی تھی) ایسے وقت میں یہ ذرا سی اچھی خبر آئی ہے کہ سعودی عرب نے جو تین ارب ڈالر ہمارے سٹیٹ بنک میں ’’محفوظ سرمائے‘‘ کے طور پر رکھے ہوئے ہیں، انہیں مزید رکھے رہنے کی منظوری دے دی ہے۔ یوں خطرات میں کچھ کمی آئی ہے اور پہاڑ اگر ٹلا نہیں ہے تو کچھ سرکا ضرور ہے۔
یہ محفوظ سرمایہ قرض نہیں ہے۔ یعنی ہم اسے استعمال نہیں کر سکتے۔ ہمارے لئے یہ اعزاز ہی کافی ہے کہ سعودی عرب نے اتنی بڑی امانت کا امین ہم کو بنایا۔ پاکستان کی حالت اس ’’ضرورت مند بھوکے‘‘ کی سی ہے جسے کوئی خداترس آدمی ایک روٹی عنایت کرے اور کہے ’تم اسے کھا نہیں سکتے، گھر میں کوئی الماری یا صندوق ہے تو ا س میں رکھ سکتے ہو اور جب میں چاہوں گا، یہ روٹی تم سے واپس لے لوں گا۔
بہرحال، نفسیاتی سہارا تنکے سے کچھ بڑھ کر ہوتا ہے۔ امید ہے بلکہ خبر ہے کہ چین سے قرضہ مل جائے گا۔ ویسے ہمارا حال اس سے بھی بڑھ کر ہے جس کا ذکر غالب نے قرض کی پیتے تھے مے والے شعر میں کیا ہے۔ ہمارا حال دراصل غالب کے ایک اور شعر جیسا ہے۔ پہلا مصرعہ ملاحظہ فرمائیے۔
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اس مصرعے کو جو پہلی بار پڑھے گا، یہی سوچے گا کہ اگلے مصرعے میں مرزا صاحب ابرباراں کی آمد کیلئے خدا سے التجا کرتے ہوئے پائے جائیں گے، یعنی یہ کہ مصرعہ ثانی کچھ یوں ہو گا
قافلۂ ابرِ رواں اس دشت میں آوے
لیکن دیکھئے، مرزا صاحب نے کس طرح اپنے اس مصرعے میں قنوطیت کوٹ کوٹ کر بھر دی بلکہ SADISM بھر دیا کہ
اس آبلہ پا وادی پر خار میں آدے
یعنی کانٹوں کی پیاس تو کیا بجھے گی، پائوں کے آبلے ضرور چھلنی ہو جاویں گے اور کیف کرب بڑھا دیویں گے۔
ہمیں اسی کیفِ کرب کی لت پڑ گئی ہے۔ اتنے وسائل ہمارے ملک میں ہیں لیکن ہر تیسرے سال ایک نیا بحران پیدا کر کے سب اچھے امکانات پر خط تنسیخ پھیر دیتے ہیں اور یہ ’’مشق‘‘ اتنی بار کی جا رہی ہے کہ اب مزید مشق کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔
……………
بلاول بھٹو نوعمر ہیں لیکن وزیر خارجہ بن کر انہوں نے جس مہارت سے دورے اور ملاقاتیں کی ہیں، اس سے 50 سال کے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم یعنی ان کے نانا کی یاد آ گئی۔ اوپر سے چھن کر جو اطلاعات آ رہی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے امریکہ اور چین کے حکام پر مثبت اثر چھوڑا ہے اور اب ریاست پاکستان کو اس مثبت اثر کے ثمرات ملنے کی امید ہے۔ خارجہ تعلقات میں ملاقاتوں اور بات چیت کے دوران جس بھائو سبھائو کی ضرورت ہوتی ہے، بلاول نے اس میں مہارت کے علاوہ سلیقے کا بھی خوب مظاہرہ کیا ورنہ وہ بھی شاہ محمود قریشی کی طرح ہر ملاقات کے سامنے ٹانگ میز پر رکھ کر یا ٹانگ کا رخ ملاقاتی کی طرف موڑ کر اپنے ’’درویش‘‘ بلکہ ملنگ ہونے کا ثبوت د ے سکتے تھے۔ بھٹو مرحوم کے دور میں پاکستان کے سفارتی تعلقات اور بین المملکتی دوستی کا دائرہ جتنا وسیع ہوا تھا، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن ان کے بعد تو ہم امریکی نظام شمسی کا ایسا ’’سیٹلائٹ‘‘ بن گئے کہ اپنی مثال آپ ہو گئے۔ اب حکومت ہے، خدا کیلئے وہ سی پیک کو بحال کرے تاکہ چین سے تعاون ملنے کی سابقہ سطح بحال ہو۔ وہ سطح بحال ہوئی تو امریکہ بھی ہماری ’’قدر‘‘ بڑھانے پر مجبور ہو گا، یہ قدر بڑھے گی تو ڈالر کی قدر کرائے گی۔
…………
بھارتی صوبے کرناٹک (میسور) کے سابق وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے اس بیان نے سنگ پریوار کے ہندوئوں کو آپے سے باہر کر دیا ہے کہ وہ گائے کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ یہی نہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ گائے کا گوشت مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور ہندو بھی کھاتے ہیں۔
تاثر یہ ہے کہ ہندو گوشت نہیں کھاتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ماس مچھی سے سخت پرہیز صرف برہمن کرتے ہیں۔ باقیوں میں ہر طرح کے لوگ ہیں، شاکا ھاری بھی اور گوشت خور بھی۔ بھارت بھر کے شہروں میں ہر قسم کا گوشت ملتا ہے ، گائے کا بھی اگرچہ ہوٹل والے اسے گائے کا نہیں، بڑے کا گوشت بتلاتے ہیں۔ ملک بھر میں کانجی ہائوس ہیں جہاں بوڑھی گائیں برے حالوں میں رکھی جاتی اور پھر ذبح کر دی جاتی ہیں۔ ان کے چمڑے کا کاروبار کرنے والی زیادہ تر ٹینریز ہندوئوں کی ، پھر عیسائیوں کی ہیں۔ مسلمانوں کی تو جرأت نہیں کہ وہ کوئی ٹینری بنانے کا سوچ بھی سکے۔ مسلمانوں کی حالت تو یہ ہے کہ انہوں نے دودھ کیلئے بھی گائے رکھنا چھوڑ دی ہے کہ جنونی ہندو دھاوا بول دیں گے۔
انوکھی بات ہے کہ شمالی بھارت دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں انسانی گوشت کھانے کی ایک خاص فرقے کو ’’عملاً‘‘ اجازت ہے۔ اگھوری نامی فرقے کے ننگ دھڑنگ سادھو ہمالیہ کے ساتھ ساتھ سارے شمالی صوبوں میں گھومتے اور شمشان گھاٹوں سے جلتی چتائوں کو کھینچ کر ان کا ’’بھنا‘‘ ہوا گوشت کھا جاتے ہیں اور کسی پولیس والے کی ہمت نہیں پڑتی کہ انہیں پکڑ سکے۔ یہ اگھوری خطرناک جادوگر مانے جاتے ہیں اور سبھی ان کے جادو سے ڈرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ اگھوری چھوٹے جانوروں اور پرندوں کو زندہ ہی کھا جاتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے کہ محض اس شک کی بنیاد پر کہ اس کے ہاتھ میں جو تھیلا ہے ، اس میں گائے کا گوشت ہے، سرِعام مار دیا جاتا ہے اور کوئی اخبار نہیں بتاتا کہ مارنے کے بعد جب تلاشی لی گئی تو تھیلے میں سے گوشت نہیں آلو اور گاجریں نکلیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024