سیاست بمقابلہ صحافت
گذشتہ سال صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی ایوارڈ لینے والے معروف صحافی ارشد شریف کیخلاف مختلف تھانوں میں متعدد ایف آئی آرز درج کروائی جا چکی ہیں جبکہ سینئر اینکر پرسن صابر شاکر کیخلاف بھی مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ایک اور معروف اینکر اپنی گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش رہے اور با لآخر حفاظتی ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک اور اطلاع کے مطابق معروف صحافی معید پیرزادہ کیخلاف بھی کسی علاقہ میں مقدمہ درج کروایا جا چکا ہے۔ یہ سب کچھ اس حکومت کے دور اقتدار میں ہو رہا ہے جو گذشتہ ساڑھے تین سال اس وقت کی اپوزیشن کا حصہ تھی جسکی آدھی سیاست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے میڈیا پر مبینہ قدغن کیخلاف آواز بلند کرتے گزری۔
پاکستان میں آزادیٔ صحافت کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزیدگھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010ء سے 2021ء کے دوران مجموعی طور پر 70 صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے جبکہ سینکڑوں صحافی مختلف مقامات پر جسمانی تشدد کا شکار ہوئے۔ یہ اعداد و شمار صرف ان صحافیوں کے ہیں جنہوں نے ایسے واقعات کو رپورٹ کیا تاہم اگر ان کی مکمل تفصیل کسی عدالتی کمیشن کے ذریعے حاصل کی جائے تو مختلف انواع کی ہراسمنٹ (Harrasment) اور بلیک میلنگ کا شکار ہونیوالے صحافیوں کے اعدا و شمار اوپر دیئے گئے موازنہ سے قدرے مختلف اور حیران کن ہو سکتے ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی طور پر 2021ء میں ریکارڈ 293 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا جبکہ مجموعی طور پر 24 صحافی قتل کر دیئے گئے۔ اسی طرح 2020ء میں کل 280 صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا گویا صحافی برادری کیخلاف عدم برداشت کا معاملہ جتنا لوکل ہے اس سے کہیں زیادہ بین الاقوامی نوعیت کا بھی ہے۔
صحافی برادری کیخلاف عدم برداشت کی آخر ایسی کیا کلیدی وجوہات ہیں جو روزانہ کسی نہ کسی کے اغوائ، تشدد، دھمکی یا قتل کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ آخر کب تک اس عدم برداشت کو مزید برداشت کرنا پڑے گا؟ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عدم برداشت کے اس رویہ کو ہمارا ذہن اب کچھ کچھ تسلیم کرنا شروع کر چکا ہے۔ گویا باہمی رواداری ناپیدگی کی طرف مائل ہے۔ ایک خیال کے مطابق بے باک رائے رکھنے اور بلا خوف و خطربات چیت کرنے والے کم و بیش تمام صحافی دراصل ذہنی طور پر تیار ہو چکے ہوتے ہیں کہ کبھی بھی وقت کی کایا پلٹ سکتی ہے کہ آج کے عزیز کل کے رقیب بن ٹھہریں۔لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ آج صحافتی برادری اس دردناک پہلو کو ذہنی طور پر تسلیم کر چکی ہے کہ اگر کسی صحافی کی فین فالونگ کئی ملین تک پہنچ چکی ہے تو کوئی گمان نہیں کہ شہر اقتدار کے روح رواں کی تبدیلی کے بعد اسی صحافی کی گردش ایام کی مدوجزر کی نذر ہو جائے۔ ایوان اقتدار کی جانب سے عدم برداشت کا مظاہرہ دراصل اہم عہدوں پر براجمان اشرافیہ کے اندر پھیلتی مایوسی کا اشارہ تصور ہوتا ہے۔ اس عدم برداشت کے مظاہرہ کی ادنیٰ مثال اخبارات و جرائد کو نذر آتش کرنے، صحافتی اداروں کی عمارتوں پر حملہ و پتھراؤ اور توڑ پھوڑ وغیرہ سے بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح میڈیا سینسر شپ ایوان اقتدار کی ذہنی مایوسی کو عیاں کرتی ہے۔ ان تمام منفی عوامل کیخلاف دبی دبی آواز تو ہر دور میں اٹھائی جاتی رہی لیکن عملی طور پر کوئی قابل قدر اقدام نہ اٹھایا جا سکا۔ قیام پاکستان کے بعد سے گاہے بگاہے مختلف صحافتی تنظیمیں معرض وجود میں آتی رہیں جن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے ) 1950ء سے صحافتی میدان میں برسر پیکار ہے۔اسی طرح آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کا قیام 1953ء میں ہوا اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) 1957ء سے ملک میں کام کر رہی ہے۔ یہ تما م چیدہ چیدہ باڈیز میڈیا کو درپیش صورتحال پر اجلاس طلب کرتی رہتی ہیں جن میں کئی اہم فیصلے بھی کئے جاتے رہے لیکن بنیادی طور پر پیشہ صحافت آج بھی شدت پسندانہ اقدامات اور بدلہ کی سیاست کا سامنا کر رہا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کیخلاف سب سے خطرناک عمل مخصوص ٹرینڈ اور منظم مہمات کا چلایا جانا ہے جن کا بنیادی مقصد میڈیا پرسنز کو عوام کی نظر میں ملک دشمن عناصر کا پیرو کارثابت کرتے ہوئے انکی کریڈیبلٹی کو چیلنج کرنا ہوتا ہے اگرچہ بہت سے معروف صحافیوں پر اس نوعیت کے الزامات لگائے جا چکے ہیں جن کے نام لینا یہاں مناسب نہیں تاہم ماضی میں مختلف صحافی اپنے خلاف غیر مہذب مہمات کا شکار بھی رہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ سوشل لائف کو بھی ٹارگٹ کیا جاتا رہا۔وقت کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت میں جہاں مختلف چیلنجز و مسائل میں اضافہ ہواہے وہیں جدید ٹیکنالوجی نے پیشہ صحافت میں آسانیاں بھی پیدا کر دی ہیں۔ کچھ سال قبل ایک صحافی اپنی سٹوری کی تحقیق پر کئی کئی ماہ لگا دیتا تب جا کر سٹوری ہر زاویہ سے مکمل ہوتی۔ اگرچہ اب کاپی پیسٹ کے دور نے مہینوں کا کام منٹوں میں منتقل کر دیا ہے جس سے صحافت کا معیار کافی کمپرومائیز ہوا ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ صحافت جیسے عظیم پیشہ سے منسلک افراد کو عملی طور پر بدلہ کی سیاست سے محفوظ رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں بلکہ صحافی برادری کو قانونی طور پر بھی کچھ تحفظ فراہم کیا جائے جس کا نعرہ ہر سیاسی جماعت لگاتی آئی ہے۔
٭…٭…٭