ملکی سلامتی کے ادارے ملک بچائیں

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد کی جانب ’’حقیقی آزادی‘‘ لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے اور خود پشاور سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد سری نگر ہائی وے پہنچیں گے اور وہاں سے لانگ مارچ اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوگا۔ ابھی تک مجھے تو یہ علم نہیں ہوا کہ یہ کس سے آزادی کی بات کر رہے ہیں؟ ہر روز نیا بیان دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا ہے اور لاہور‘ کراچی سمیت ملک بھر میں پی ٹی آئی کے عہدیداران و کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس کارروائیاں جاری ہیں اور لاہور میں مزاحمت پر ایک پولیس اہلکار کی شہادت بھی ہوئی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس معاملے میں ماحول کشیدہ تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ وفاقی کابینہ نے لانگ مارچ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کرکے اعلان کیا ہے کہ لانگ مارچ کو بزور روکا جائے گا کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے خونی لانگ مارچ کا منصوبہ بنارکھا ہے۔
پرامن لانگ مارچ ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے لیکن خونی لانگ مارچ کی بات کرنے والے ملک میں ایسا انتشار چاہتے ہیں کہ جس سے ان کی ناکامیاں چھپ جائیں اور الزام ملک سنبھالنے والوں پر آجائے۔ میں نے تو پہلے ہی کہا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہئے اور کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرنی چاہئے ا ور پی ٹی آ ئی کی مکمل ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لانگ مارچ کو ہر صورت پرامن رکھے۔ اس وقت جو صورتحال بن چکی ہے اس میں ملک میں انتشار کے خطرات میں زبردست اضافہ ہوچلا ہے۔ اگر حکومت لانگ مارچ کو روکنے کا فیصلہ کرچکی ہے اور پی ٹی آئی بضد ہے کہ اس نے لانگ مارچ کرنا ہے تو ظاہر ہے ایسے میں خون خرابے کا خطرہ ہے جس سے پہلے سے معاشی طور پر تباہ حا ل ملک مزید تباہی کی جانب چلا جائے گا اور بالآخر ملک بچانے کے لئے دفاع کے ذمہ داروں کو آگے آکر ملک بچانا پڑے گا کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک بچانا ہمارے دفاعی اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے۔تاہم سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو انتشار سے بچانے کے لئے اپوزیشن کے لانگ مارچ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالے۔ اب تک یہ ملکی تاریخ ہے کہ کسی بھی لانگ مارچ یا دھرنے سے حکومت ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اب یہ روایت پڑنی چاہئے کہ لانگ مارچ یا دھرنے سے حکومت کا خاتمہ ہوسکے لیکن اس کے لئے زیادہ ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ پرامن سیاسی احتجاج و لانگ مارچ کو بغیر کسی رکاوٹ کے بلاروک ٹوک جاری رکھنے کی اجازت دے اور پی ٹی آئی قیادت کی مکمل ذمہ دار ی ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھ کر لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون کرے۔
اس وقت حکومت و اپوزیشن کی موجودہ کشمکش میں ملک معاشی طور پر دیوالیہ پن تک پہنچ چکا ہے اور سیاستدان اپنی سیاست و عہدے بچانے کے لئے اس ملک کوخوفناک حالات کی جانب لے جانے کے لئے بضد ہوچکے ہیں۔ ایسے میں ملک بھر کی سنجیدہ اور غیر جانبدار شخصیات کو کردار ادا کرنا ہوگا جو حکومت و اپوزیشن کے باہمی مذاکرات کا بندوبست کرائیں اور باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ آئینی طور پر تو موجودہ حکومت کی مدت اگست 2023ء میں پوری ہوگی لیکن اگر سنجیدہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے چند سالوں کے لئے معاشی بحالی کے ون
پوائنٹ ایجنڈے پر قومی حکومت قائم کرنے پر باہمی اتفاق رائے کرلیا جائے یا کسی مخصوص تاریخ پر نئے انتخابات پر باہمی بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے کرکے اعلان کردیا جائے اور ملک کو کھیل تماشہ بناکر عوام کا خون بہانے سے بچا جاسکے تو بہتر ہوگا اور اس سلسلے میں سنجیدہ شخصیات کی جانب سے بات چیت و فیصلے میں کردار ادا کرنا‘ ملک کی اہم خدمت تصور کی جائیگی۔
لانگ مارچ کرنے والی تحریک انصاف سے ان کی 4سالہ کارکردگی کا پوچھیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ ہمیں اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں تھی اور مخلوط حکومت میں ہم اپنی مرضی کی موثر قانون سازی نہیں کرسکے اسی لئے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ موجودہ نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے اور موجودہ نظام میں کوئی بھی آجائے وہ کسی بھی صورت ملک کے مسائل حل نہیں کرسکتا اور موجودہ نظام میں ماضی کی طرح ہمیشہ ہی جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ وڈیرہ اور چوہدری ہی ایوان اقتدار تک پہنچ پائے گا جسے عام غریب آدمی کے مسائل کا علم ہی نہیں تو احساس کیسے ہوسکتا ہے؟
موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ملک سری لنکا بننے میں دیر نہیں لگے گی اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ملک بچانے کے لئے ملکی دفاع و سلامتی کے اداروں کو ہی آگے آنا ہوگا۔ اسی لئے بہتر ہے کہ خدارا۔ اپنی ذاتی سیاست و عہدوں کو پس پشت ڈال کر پہلے ملک کو سری لنکا بننے سے بچانے کی سوچ ہونی چاہئے۔ اسی لئے ملکی سلامتی کے اداروں کو چاہئے کہ حکومت و اپوزیشن کی جماعتوں کو بٹھائیں اور موجودہ نظام کو ملک کے بہترین مفاد میں ختم کرکے الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرایا جائے۔ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات سے سیاست میں سے دولت کا عنصر مکمل ختم ہوجائے گا اور پارٹی لیڈر اپنی مرضی سے پارٹی کے وفاداروں کو اسمبلیوں میں بھیج سکے گا۔ سیاست سے الیکٹ ایبل کا معاملہ ختم ہوجائے گا جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں مجبوراً مخصوص خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں۔
ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے نہ صرف انتخابی نظام کی یکسر تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ میرے قائد ایئر مارشل اصغر خان نے تقریباً 43سال پہلے ہی اپنے منشور میں ملک کی ترقی کا راز بتادیا تھا اور ملک کو چھوٹے چھوٹے انتظامی صوبوں میں تقسیم کرکے ہر ڈویژن کو ایک انتظامی صوبہ بنانے کا منشور دیا تھا۔ ہر ڈویژن میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بنچ ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف ملے اور دیوانی مقدمہ ہر صورت ایک سال جبکہ فوجداری مقدمہ چھ ماہ میں فیصل کیا جائے۔ اسی طرح سب سے زیادہ بااختیار بلدیاتی نمائندے ہوں جو اپنے مقامی علاقوں کے تمام بنیادی مسائل کے حل کے وسائل و اختیارات کے حامل ہوں۔