پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کا استعمال امریکہ اور پاکستان کے متضاد دعوے
امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے امریکی افواج کو افغانستان میں موجودگی برقرار رکھنے میں مدد دینے کیلئے فضائی حدود اور زمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی نائب وزیر دفاع برائے انڈوپیسفک افیئرز ڈیوڈ ایف ہیلوے نے امریکی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے اس لئے امریکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گا۔ انکے بقول پاکستان نے ہمیں اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اگرچہ اس امریکی دعوے کی سختی سے تردید کی ہے اور اسے غیرذمہ دارانہ قیاس آرائی کے زمرے میں شامل کیا ہے جن کے بقول پاکستان میں کوئی امریکی فوجی یا ایئربیس موجود نہیں۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ امریکہ کو پاکستان کی فضائی یا زمینی سپیس دینے کی کوئی تجویز زیرغور تھی نہ ہے تاہم انہوں نے یہ کہہ کر اپنی وضاحت مشکوک بنا دی کہ پاک امریکہ ایئر اور گرائونڈ لائن کمیونیکیشن کا معاہدہ 2001ء میں کیا گیا تھا اور کوئی نیا معاہدے طے نہیں پایا۔ یہ امر واقع ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے 2001ء میں جب افغانستان پر نیٹو فورسز کے ذریعے یلغار کی تو اس نے پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس لوٹانے کی دھمکی دیکر اسے افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا تھا۔ اس سلسلہ میں جرنیلی آمر مشرف نے 2001ء میں امریکہ کے ساتھ اسے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا جو معاہدہ کیا اسکی بنیاد پر ہی پاکستان کے چار ایئربیسز امریکہ کے حوالے کئے گئے اور اسے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی چنانچہ امریکی نیٹو فورسز کے جنگی جہاز انہی ایئربیسز سے اڑان بھر کر افغانستان کا تورابورا بناتے رہے جس کے ردعمل میں پاکستان بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی لپیٹ میں آیا اور اسے عملاً افغانستان سے بھی زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔ یہ معاہدہ اور پھر اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی ہیلی کاپٹروں کا ایبٹ آباد اپریشن ہماری خودمختاری اور قومی غیرت کے سراسر منافی تھا جس کے بعد 2012ء میں امریکی جہازوں نے ہماری سلالہ چیک پوسٹوں پر حملہ کیا جس میں پاکستان کے دو درجن جوان شہید ہوئے تو اس پر پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار سامنے آیا اور حکومت نے نیٹو سپلائی بند کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایئربیسز بھی امریکہ سے واپس لے لئے۔ اب ترجمان د فتر خارجہ کی وضاحت سے یہ واضح عندیہ مل رہا ہے پاک امریکہ تعاون کا 2001ء کا معاہدہ ابھی تک برقرار ہے اور امریکی نائب وزیر دفاع نے یقیناً اس معاہدے کے حوالے سے ہی پاکستان کی فضائی اور زمینی سپیس استعمال کرنے کی اجازت ملنے کا دعویٰ کیا ہوگا۔ یہ بات اس وقت کی گئی ہے جب امریکہ افغانستان سے اپنی افواج نکال رہا ہے اور پاکستان کی کوششوں سے افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار ہو رہی ہے جس کیلئے گزشتہ روز پاکستان اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیروں نے بھی دوران ملاقات باہمی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے پاک امریکہ تعاون کے 2001ء کے معاہدہ کے حوالے سے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دینے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ معاہدہ ابھی تک روبعمل ہے یا نہیں جس کے تحت امریکہ کو پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس حوالے سے امریکی نائب وزیر دفاع کے دعوے پر قوم کا مضطرب ہونا فطری امر ہے کیونکہ یہ ہماری سلامتی اور خودمختاری کا سوال ہے۔